بلوچ طالب علم رہنماؤں کو منظر عام پر نہ لانالمحہ فکریہ ہے ۔ بی ایس اوآزاد

134

بلوچ طالب علم رہنماؤں کی گمشدگیوں کو ایک سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود منظر عام پر نہ لانالمحہ فکریہ ہے۔بی ایس اوآزاد

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ گزشستہ سال 15 نومبر 2017 کو تنظیم کے مرکزی سیکرٹری جنرل ثنا اللہ بلوچ، مرکزی کمیٹی کے ممبران نصیر بلوچ، حسام بلوچ اور بلوچستان نیشنل موومنٹ کے ممبر رفیق بلوچ کو کراچی کے علاقے موسمیات سے رینجرز اور سادہ وردی میں ملبوس سیکورٹی اہلکاروں نے گھر سے اٹھا کر لاپتہ کردیا۔ آج ایک سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود نہ انہیں منظر عام پر لایا گیا اور نہ ہی اہل خانہ کو کسی قسم کی معلومات دی گئی ہیں۔ طلباء رہنماؤں کی جبری گمشدگی اور منظر عام پر نہ لانے کی وجہ سے اہل خانہ اور طالب علموں میں شدید تشویش پائی جاتی ہیں۔

بی ایس او آزاد پر ریاستی کریک ڈاؤن میں تیزی 2009 کے دوران سرچ اینڈ ڈسٹرائے پالیسی کے تحت عمل میں لایا گیا۔ سرچ اینڈ ڈسٹرائے پالیسی کے تحت بی ایس او آزاد کے کئی صف اؤل کے لیڈران جن میں چیئرمین زاہد بلوچ، سینئر وائس چیئرمین ذاکر مجید بلوچ، جنرل سیکرٹری ثناء اللہ بلوچ، انفارمیشن سیکرٹری شبیر بلوچ، مرکزی کمیٹی کے ممبران نصیر بلوچ اور حسام بلوچ سمیت کئی زونل لیڈران و ممبران کو اٹھا کر لاپتہ کردیا جن کا تاحال کچھ پتہ نہیں۔ کئی مرکزی و زونل لیڈران سمیت سینکڑوں کارکنان کو ماورائے عدالت قتل کرکے لاشیں جنگلوں اور ویرانوں میں پھینک دی گئی ہیں۔

ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچ سماج میں قومی و سیاسی شعور کی ترقی کو ریاست نے ہمیشہ اپنے لئے خطرہ سمجھا اور اسی شعور کے خوف سے ریاست نے کریک ڈاؤن کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے طالب علموں میں خوف کی لہر پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی ۔ریاست کی اولین ترجیح یہی تھی کہ طاقت کے استعمال سے بلوچ سماج کو مکمل مذہبی انتہا پسندی میں دھکیل کر اپنے مقاصد حاصل کرلئے جائیں لیکن شعوری نوجوانوں کی جدوجہد انکے غلیظ مقاصد کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی ۔
اس لئے بلوچ طالب علموں کو اپنے راہ کی رکاوٹ سمجھ کر انہیں اپنے راستے سے ہٹانے کی کوشش طاقت کے استعمال کے ذریعے سر انجام دی گئی۔

بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں اورجبری گمشدگی کا سلسلہ دن بدن سنگین ہوتا جارہا ہے۔گزشستہ کئی عرصوں سے انسانی حقوق کی پامالیوں میں شدت سے اضافہ اور میڈیا کی مکمل ریاستی جانبداری کا عمل مسلئے کو مزید سنگینی کی جانب لے جارہی ہیں ۔جس سے بلوچ سر زمین ایک مقتل گاہ میں تبدیل ہوچکا ہے۔

ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور انٹرنیشنل میڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ انسانی بنیادوں پر بلوچستان میں جبری گمشدگی کے معاملات کا نوٹس لیکر بلوچ قوم کو ریاست کے ظلم و ستم سے محفوظ کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ اور جبری طور پر لاپتہ بی ایس او آزاد کے لیڈران کو منظر عام پر لانے کے لئے ریاست پاکستان پر دباؤ بڑھانا چاہئے۔