رواں سال کے پہلے اٹھ ماہ کے دوران پیش آئے 16 حادثات میں 59 کان کن جاں بحق ہوچکے ہیں ۔ محکمہ معدنیات
بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں ہونے والے حادثات پر قابو پایا نہیں جاسکا 2010 سے رواں سال اگست تک صوبے کی کوئلہ کانوں میں ہونے والے 221 حادثات میں 422 کان کن جان بحق ہوئے جبکہ ان واقعات میں 52 کان کن زخمی بھی ہوئے۔
محکمہ معدنیات نے بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں آٹھ سال کے دوران ہونے والے حادثات کے حوالے سے رپورٹ جاری کردی اس رپورٹ کو بلوچستان اسمبلی میں پیش کردیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق 2010 میں صوبے کی کوئلہ کانوں ہونے والے 22 حادثات میں 48 کان کن جان بحق ہوئے، 2011 میں ہونیوالے 31 حادثات میں 90 کان کن ہلاک ہوئے، 2012 میں ہونے والے 38 حادثات نے 50 کانکنوں کی جان لے لی، 2013 میں پیش آئے سولہ حادثات میں 33 کان کن لقمہ اجل بنے، 2014 کے دوران کوئلہ کانوں میں 24 حادثات رونما ہوئے جن میں جان بحق افراد کی تعلق 33 رہی، 2015 میں کوئلہ کانوں کے اندر ہونے والے 30 حادثات میں 45 کان کن ہلاک ہوئے اسی طرح 2016 میں صوبے کی کوئلہ کانوں میں 23 حادثات میں 31 کان کن جان بحق ہوئے اور 2017 میں بھی کوئلہ کانوں کے 21حادثات نے 33 کانکنوں کو نگل لیا جبکہ رواں سال کے پہلے اٹھ ماہ کے دوران پیش آئے 16 حادثات میں 59 کان کن جاں بحق ہوچکے ہیں ۔
واضح رہے بلوچستان میں زیرِ زمین کان کنی زیادہ ترپلر اینڈ روم طریقے سے کی جاتی ہے، جو کہ کان کنی کا سب سے خطرناک طریقہ ہے اور دنیا بھر میں اس طریقے کا استعمال بند کردیا گیا ہے۔
مزدورں کے لئے مہم چلانے والوں اور ریسرچرز نے اکثر اس بات پر زور دیا ہے کہ کان کنی کے جدید طریقے لاگو کی جائیں اور کان کنوں کو ذاتی حفاظتی سامان بھی مہیا کی جائیں، جن میں سانس لینے کے لئے ماسک، چشمے، آکسیجن سیلنڈر اور گیس کی مقدار کو بھانپنے والے آلات شامل ہیں۔