بلوچستان کے حوالے سرکاری سطح پر تعلیمی پالیسی کا مکمل فقدان ہے – بی ایس او

166

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی چیئرمین نذیر بلوچ نے کہا ہے بلوچستان میں 60 فیصد بچوں کے اسکولوں سے باہر ہونے کے باوجود سرکاری سطح پر 13 سو سے زائد اسکولوں کی بندش بلوچستان کے حوالے سے آئے روز ترقی اور میگا پرجیکٹس سے بلوچ قوم کو حاصل ہونے والی فوائد کا واضح مثال ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حوالے سے جب بھی ترقی اور میگا منصوبوں کی آغاز کے اعلانات کئے گئے تو بلوچ قوم کے حصے میں صرف ظلم و جبر اور نا انصافیاں آئی جبکہ ترقی کے لئے بنیاد فراہم کرنے والی واحد عنصر تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہر نئے آنے والی حکومت میں تعلیمی ایمرجنسی کا نعرہ تو لگایا لیکن نتیجہ آفسران اور وزار کے بنک بیلنس کی کرپشن کی صورت میں آئی شعبہ اس وقت بلوچستان بھر میں مخصوص مافیا کے ہاتھوں مکمل یرغمال ہے اساتذہ کے کمی کو جواز بنا کر اسکولوں کو بند کروائی گئی ہے جبکہ اساتذہ کے آسامیوں پر تعنیاتی حکومت کا کام ہے بچوں کو بنیادی حق تعلیم سے محروم رکھ کر صرف پسماندگی کو تقویت دی جارہی ہے ۔

انہوں نے مزید کہا یے بلوچستان کے حوالے سے سرکاری سطح پر تعلیمی پالیسی کا مکمل فقدان ہے جب تک ایک جامع تعلیمی پالیسی نہیں بنائی جائے گی اور تعلیمی فنڈز میں کرپشن کا مکمل احتساب نہیں کیا جائے گا تعلیمی مسائل کا حل ناممکن یے جلد از جلد بند اسکولوں کو کھولنے کے لئے اقدمات نہیں کئے گئے تو بی ایس او بھرپور آواز بلند کرے گی ۔