بلوچستان: نوجوان نئے سیاسی متبادل کے متلاشی
تحریر: عابد حسین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سرمایہ دارانہ نظام کا نامیاتی بحران بڑے پیمانے پر عالمی سطح پر مزدور تحریک کے ساتھ ساتھ نوجوانوں اور طلبہ کی تحریکوں میں شدت لے کر آیا، جس کا واضح اظہار ہمیں دنیا بھر میں ابھرنے والی تحریکوں میں نظر آیا۔ جس میں امریکہ سے لے کر ہندوستان تک کے نوجوانوں نے اپنے غم اور غصہ کا اظہار کیا۔ ان تحریکوں کا ایک اور پہلو بھی دیکھنے کو ملا جس میں نوجوانوں اور محنت کشوں نے روایتی پارٹیوں اور قیادت کو یکسر مسترد کردیا اور ایک نئے سیاسی متبادل کے لئے سرگرداں ہیں۔ حالیہ عرصے میں ہندوستان کے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ابھرنے والی تحریک نے بھی اس خطے میں نوجوانوں کو ہمت اور شکتی بخشی، مگر تحریک نظریاتی کمزوریوں کی وجہ سے کسی منطقی انجام تک نہ پہنچ سکی لیکن یہ آنے والے طوفانوں کا ایک پیش خیمہ ضرور ہے، جس نے حکمران طبقے میں مسلسل خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے۔ انہی تحریکوں کے تناظر میں پاکستان میں مشال خان کے بہیمانہ قتل پر نوجوانوں کے اندر ایک شدید غم و غصہ موجود تھا جس کا ملک بھرمیں نوجوانوں نے ایک خاطر خواہ اظہار بھی کیا۔
اس ضمن میں ہم بلوچستان کا عالمی دنیا کے تناظرمیں ایک جزوکی حیثیت سے ہی تجزیہ کر سکتے ہیں، جوکسی بھی طرح عالمی کل سے کٹا ہوا نہیں ہے اور اس طرح کاٹ کر اور تنہا ہم کبھی بھی درست تجزیہ اور اس کے سیاسی حل کے طرف نہیں جاسکتے۔ سوویت یونین کے انہدام سے پہلے بننے والی طلبہ تنظیموں پر ایک نظریاتی چھاپ دیکھنے کو ملتی ہے لیکن اس چھاپ میں نظریاتی کمزوریاں بھی موجود تھیں، جس کا واضح ثبوت ہمیں سوویت یونین کے انہدام میں ملتا ہے، جہاں قیادت نے اپنے سیاسی قبلوں کا رخ تبدیل کیا وہیں پر تنظیموں کے نظریاتی کور اور نظریاتی اساس بھی یکسر بدل گئے۔ یہ محض چند ایک تنظیموں کا المیہ نہیں تھا بلکہ عالمی سطح پر اسٹالنسٹ تنظیموں کا یہی حال رہا۔
اسی نظریاتی زوال کے تسلسل میں بلوچستان میں بھی روایتی سیاست اور روایتی تنظیموں نے نظریات کو قصہ پارینہ کہہ کہ تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ وقت گزرنے کا ساتھ ساتھ نظریات محض بحثوں تک محدود رہ گئے اور عمل میں شدید فقدان نظر آیا۔ نظریات قول اور فعل میں کسی بھی طرح سے ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں۔ بقول عظیم انقلابی لیڈر ٹراٹسکی نظریہ ایک سائنس ہے اور عمل ایک فن ہے۔ جہاں نظریاتی کمزوریاں ہوں، وہیں پر نظریات اور عمل میں تضادات جنم لیتے ہیں اور انہی تضادات کی بنیاد پر بلوچستان میں نوجوانوں کی تحریک واضح اور درست سمت کا انتخاب نہیں کر پائی۔ مسلح جدوجہد کی وجہ سے بلوچستان میں ایک سیاسی خلاء نے جنم لیا جس کو پر کرنے کے لئے نام نہاد قوم پرست جماعت اور اس کی دم چھلے طلبہ تنظیم کوششیں کرتے رہے۔ جہاں قوم پرست قیادتیں نظریاتی زوال پذیری کا شکار ہوئیں وہیں پر طلبہ قیادت بھی مفاد پرستی کی دلدل میں مزید دھنستی چلی گئی۔ اداروں میں نظریاتی بحث کو ممنوع قرار دیا اور یہ عمل باقاعدہ ایک تسلسل کے ساتھ چلا ہے جس کے نتیجے میں ہمیں طلبہ سیاست زوال کا شکار ہوتے ہوئے نظر آئی۔
آج بلوچستان میں طلبہ سیاست کی بات چلے تو کوئی بھی باشعور نوجوان اس روایتی سیاست کا نہ تو حصہ ہے اور نہ حصہ بننا چاہتا ہے جو کہ بلوچستان کے نوجوانوں کے بلند سیاسی شعور کی غمازی کرتا ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ نوجوان سیاست کے میدان میں اترنا نہیں چاہتے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے ایک سائنسی تجزیہ درکار ہے۔ کیا نوجوان یونیورسٹی انتظامیہ کے ظلم اور ان کی غنڈہ گردی سے خوش ہے؟ کیا طلبہ کے اندر فیسوں میں اضافے پر کوئی غم و غصہ موجود نہیں ہے؟ کیا وہ ان ساری چیزوں کو ازلی اور ابدی مان چکے ہیں؟ ہم سمجھتے ہیں ایسا نہیں ہے۔ آج بھی نوجوانوں کے اندر شدید غصہ موجود ہے۔ نجات کی چنگاری آج بھی نوجوانوں کے دل و دماغ میں سلگتی ہے لیکن سوال سب سے بڑا یہ ہے کہ چنگاری اپنا اظہار کیلئے راستہ ڈھونڈ رہی ہے جو کہ موجودہ طلبہ تنظیمیں دینے سے قاصر ہیں۔
صرف جامعہ بلوچستان کی مثال لے لیں تو ان نوجوانوں کے لئے یونیورسٹی انتظامیہ اور جامعہ میں موجود طلبہ تنظیموں کے مابین کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ جتنی نفرت یونیورسٹی انتظامیہ سے کرتے ہیں اتنی ہی بد دلی ان طلبہ تنظیموں کے لئے بھی موجود ہے، جس کو عام طالبعلم چھوٹے غنڈوں اور بڑے غنڈوں سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ اس کی بھی وجوہات موجود ہیں۔ جہاں آج یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ پر اپنا دھونس جمانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے آزما رہی ہے تو وہیں پر ایک لمبے عرصے سے انہی طلبہ تنظیموں کی نام نہاد قیادت یونیورسٹی پر اپنی اجارہ داری جمانے کے لئے بر سر پیکار تھی اور طلبہ سیاست کو بدنام کرنے کے لئے یونیورسٹی انتظامیہ نے بھی ان سے بہت سے فوائد اٹھائے اور آج یونیورسٹی انتظامیہ اپنے کام نکال کے ردی کی طرح ان طلبہ تنظیموں کو جامعہ سے باہر نکالنے کی تیاریاں ایک حد تک مکمل کر چکی ہے۔ اس اجارہ داری میں ان طلبہ تنظیموں نے خوب کرپشن کی، من پسند لوگوں کے داخلے اور زیادہ سے زیادہ مال بٹورنے کے لئے ہاسٹل رومز کو ہوٹل رومز کی طرح کرایوں پر دیا۔ ایک لمبے عرصے سے نان ایشوز کی سیاست طلبہ تنظیموں کو نوجوانوں سے یکسر دور کرتے چلی گئی اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ سر کلز مکمل طور پر ویران ہیں۔ طلبا کے حق میں لگائے ہوئے کیمپ میں کوئی بھی طلبہ کا نمائندہ موجود نہیں ہے کیونکہ نوجوانوں پر ان کی حقیقت آشنا ہوگئی ہے اور نہ ہی طلبہ ان سے کوئی بھی امید وابستہ کرتے ہیں۔ یہی کہتے سنا گیا ہے کہ انہوں نے ماضی میں ہمیں دھوکے دیئے ہیں یہ کیسے ہمارے نمائندے ہو سکتے ہیں۔ اس روایتی سیاست کو ہم نے رد نہیں کیا ہے اور نہ ہی یہ ہمارے ذہن کی اختراع ہے۔ یہ تاریخ کی کسوٹی پر پرکھے جا چکے ہیں اور انہی سماجی قوتوں نے رد کیا ہے۔ آج جامعہ بلوچستان کے ساتھ اور جتنے بھی ادارے ہیں وہاں پر انتظامیہ کی غنڈہ گردی اور بد معاشی بنیادی طور پر انتظامیہ کی مضبوطی نہیں بلکہ طلبہ سیاست کی انتہائی کمزوری کی غمازی کرتے ہیں اور اس کمزوری کی علامت طلبہ تنظیموں کا محض مرکزی قیادتوں تک ہی محدود ہو جانا ہے۔
جامعہ بلوچستان کے اندر حالیہ دنوں روایتی طلبہ تنظیموں کی طرف سے کیے جانے احتجاجوں میں کسی بھی طالب علم نے نہ تو کلاسز کا بائیکاٹ کیا اور نہ ہی اس احتجاج میں اپنی شمولیت کی یقین دہانی کروائی جس سے ایک بیگانگی کی سی کیفیت جنم لے چلی ہے۔ اس وقت اور حالات میں روایتی سیاست نوجوانوں اور عام عوام کی امنگوں اور خواہشات سے یکسر مختلف سمت میں جارہی ہے اور وہ ایسا کوئی پروگرام دینے سے قاصر ہیں جس سے ایک سنجیدہ حل کی طرف جایا جا سکے۔ نوجوانوں نے اپنی آنکھوں سے حالیہ عرصے میں روایتی سیاست سے تعلق رکھنے والے نام نہاد ترقی پسندوں کے ہاتھوں مشال خان کے قتل کا ہولناک واقعہ بھی دیکھاجس کے نوجوانوں پر بہت گہرے اثرات پڑے ہیں۔ یہ واقعہ حادثاتی شکل میں پیش نہیں آیا بلکہ وہ ان تنظیموں کے اندر پروان چڑھنے والی سوچ کا اظہار تھا، جس نے معاشرے اور نوجوانوں کے سامنے ان کی حقیقی شکلوں کو ننگا کیا۔
بلوچستان میں تاریخی طورپر پاکستانی ریاست کے انتہائی جبر اور اس کی استعماری بالادستی اور اس پر عالمی سرمایہ داری کے بحران میں جنم لینے والے تضادات میں بلوچستان ایک بار پھر عالمی سامراجی قوتوں کے لئے جنگ کے اکھاڑے کی حیثیت اختیار کرگیا ہے جس میں بلوچستان میں جنگ وجدل، خون ریزی، بر بریت، بے روزگاری، بھوک، ننگ، افلاس اور غربت مزید شدت اختیار کرنے کی طرف جائے گی۔ جہاں پر پرانی روایتیں دم توڑرہی ہیں تو ساتھ ہی نئی اور زیادہ ریڈیکل قیادت بھی ابھر کے سامنے آئے گی۔ یہ ایک ناگزیر عمل ہے۔ آج بلوچستان میں ان خون ریزی اور آشام زدہ حالات میں نوجوانوں کے لئے نئی سیاست، نئے نظریات اور نئے سیاسی متبادل کا قیام ایک نا گزیر عمل بن چکا ہے۔ بلوچستان میں نوجوانوں کو اپنی جنگ کو بلوچستان کے محنت کشوں کے ساتھ ساتھ خطے کے محنت کشوں کے ساتھ جوڑنی ہوگی۔ محنت کش طبقہ اس وقت نہ صرف بلوچستان بلکہ اس پورے خطے کے اندر اپنی معاشی جنگ کے لئے میدان میں اتر چکا ہے۔ نوجوانوں کو ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے درست نظریات کا انتخاب کرنا ہوگا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ مارکسزم کے بین الاقومیت پر مبنی نظریات ہی آج کامیابی کے ضامن بن سکتے ہیں۔ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی بلوچستان کو ان سامراجی جنگوں، غربت، بیروزگاری اور دہشت گردی سے نجات دلا سکتا ہے۔ یہی ماضی کی غداریوں اور نظریاتی کمزوریوں کا سبق ہے اور یہی وہ واحد حل ہے جو اس خطے میں ایک انسان دوست معاشرے کی تکمیل کو یقینی بنا سکتا ہے۔
آگے بڑھو ساتھیوں! سچے جذبوں کی قسم جیت ہماری ہوگی۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔