بلوچستان میں خشک سالی کے سائے مزید گہرے ہونے لگے!

463

کوئٹہ سمیت بلوچستان کے متعدد اضلاع خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں، جہاں صورت حال دن بدن بد تر ہوتی جارہی ہے، متاثرہ اضلاع میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گرنے کے باعث زراعت اور گلہ بانی کے شعبے بھی بری طرح متاثر ہیں اور قحط زدہ علاقوں سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔

دوسری جانب صوبائی حکومت کی کارکردگی طفل تسلیوں اور اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے تک محدود ہے۔

بلوچستان میں شدید خشک سالی سے متاثر علاقوں میں کوئٹہ، تربت، پنجگور، گوادر، دالبندین، نوکنڈی، پسنی، اورماڑہ، جیوانی، نوشکی، واشک، خاران اور ملحقہ علاقے شامل ہیں۔

خشک سالی کے باعث کوئٹہ میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ہے، شہر اور نواحی علاقوں میں ایک ہزار سے بارہ سو فٹ نیچے سے پانی نکالا جارہا ہے، شہر کے نواح میں واقع تفریحی مقام ہنہ جھیل بھی خشک ہوچکی ہے۔

دوسری جانب گوادر کی آبادی کو پانی فراہم کرنے والا آکڑہ ڈیم بھی گزشتہ کئی ماہ سے خشک ہے۔ تربت اور پنجگور میں کاریزات اور سالوں سے بہتے دریا تو کب کے خشک ہوچکے ہیں، اب زیر زمین پانی کی سطح بھی مزید گر گئی ہے اور پانی کی کمی کی وجہ سے کجھوروں کے باغات خشک ہو رہے ہیں۔

خشک سالی کے باعث کجھوروں کے باغات بھی خشک ہو رہے ہیں۔

چاغی اور اطراف کے علاقوں میں قدرتی چراہ گاہوں میں پانی، خوراک اور چارہ ناپید ہوگیا ہے اور مویشیوں کو خطرات لاحق ہیں۔ صوبے کے دیگر کئی علاقوں میں بھی پینے کے پانی کی قلت ہے اور بیشتر متاثرہ علاقوں میں باغات اور فصلیں بھی متاثر ہورہی ہیں۔

محکمہ موسمیات کے حکام کے مطابق رواں سال مئی سے اگست تک موسم گرما اور مون سون کے دوران معمول سے کم بارشیں ریکارڈ کی گئیں، جو کہ خشک سالی کا باعث ہے۔ واضح رہے کہ خشک سالی کی صورتحال پر محکمہ موسمیات نے جون کے مہینے میں پہلا اور ستمبر کے آغاز میں دوسرا الرٹ جاری کیا تھا۔

تربت اور پنجگور میں کاریزات اور سالوں سے بہتے دریا کب کے خشک ہوچکے ہیں۔

ڈائریکٹر جنرل لائیو اسٹاک بلوچستان ڈاکٹر غلام حسین کے مطابق صوبے کے تقریباً بارہ اضلاع میں خشک سالی کی صورت حال کی وجہ سے ان علاقوں میں گلہ بانی کا شعبہ متاثر ہے۔ قحط کے باعث ان علاقوں میں مال مویشیوں کے لیے چارہ ناپید ہوتا جا رہا ہے اور بکرے، دنبے اور خاص طور پر اونٹ کی نسل میں کمی کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے، لہذا جانوروں کے چارے کے لیے متبادل انتظام کی فوری ضرورت ہے۔

قحط کے باعث ان علاقوں میں مال مویشیوں کے لیے چارہ ناپید ہوتا جا رہا ہے۔

اُدھر بلوچستان کابینہ میں شامل وزراء اور دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کے مطابق صوبے میں خشک سالی سنگین صورت حال اختیار کر چکی ہے۔ قلت آب کے باعث لوگ نکل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔

وزراء نے اسمبلی میں پیش کی گئی ایک قرارداد میں صوبے کو آفت زدہ قرار دینے اور وفاقی حکومت سے خصوصی پیکج کا مطالبہ کیا ہے۔ قرارداد میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صوبے کے ہر ضلع میں قلت آب اور خشک سالی کے شکار علاقوں میں عوام کو پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے 3 ہزار سولر واٹر پاور سپلائی اسکیم فراہم کیے جائیں جبکہ مزید ڈیموں کی تعمیر کے لیے صوبے کے لئے فنڈز مختص کیے جائیں۔

خشک سالی کے باعث لوگ نقل مکانی پر مجبور ہیں۔

آبی ماہرین بتاتے ہیں کہ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی بلوچستان شدید خشک سالی کی لپیٹ میں رہ چکا ہے، جس سے صوبے اور یہاں کے عوام معاشی طور پر بہت متاثر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق صوبے میں خشک سالی کی حالیہ لہر میں آئندہ مزید اضافے کا امکان ہے۔

خشک سالی پر قابو پانے کے لیے فوری اور جامع حکمت عملی، پانی کے استعمال سے متعلق عوامی آگہی، آبی ذخائر اور پانی کے انتظام میں بہتری لانے سمیت دیگر اہم، فوری اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔