برمودہ ٹرائی اینگل اور پاک اینگل – اے کے بلوچ

260

برمودہ ٹرائی اینگل اور پاک اینگل

تحریر: اے کے بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کے اِس پُراسرار ترِین خطے کا نام شاید بہت سے لوگوں نے سُنا ہوگا اور اِس مُثلث نما برمودہ میں اب تک سینکڑوں بحری اور درجنوں ہوائی جہاز مسافروں سمیت لاپتہ ہوچکے ہیں اور آج تک ان کا کوئی اتہ پتہ معلوم نہ ہو سکا کہ انہیں زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ یہ مُثلث نما مشہور برمودہ ٹرائی اینگل سب سے زیادہ اُس وقت خبروں کی زینت بنا جب پانچ دسمبر 1945 میں امریکی نیوی کے فلائٹ نمبر 19 جو پانچ یو ایس نیوی ٹی بی ایم ایوینجر تارپیڈو بمبارز تھے، معمولی مشن پر نکلے مگر تاحال ان کے 14 رکنی عملے سمیت کوئی اثار نہیں مل سکا۔ اِس کو برمودہ ٹرائی اینگل اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ مثلث نما ہے اور امریکہ ریاست فلوریڈا اور جنوبی امریکی ملک پورٹوریکو اور برطانوی سمندری حدود کے تین کونوں پر مشتمل مثلث نما دنیا کا پُراسرار خطہ ہے۔

اس کے بارے میں کئی کتابیں اور داستانیں مشہور ہیں اور یہ کہا جاتا ہیکہ اس مثلث نما خطے میں خلائی مخلوق کا غلبہ ہے، جو یہاں سے گزرنے والے جہازوں پر حملہ آور ہوتے ہیں، اس لئے ان کا سراغ لگانا مشکل اور ناممکن ہے لیکن دنیا میں ایسے واقعات ہوتے ہوئے نظر انداز نہیں کئے جاتے، ان کے بارے میں تحقیق و ریسرچ ہوتا رہتا ہے، تاوقتِ ان کا کھوج نہ لگاکر معلومات حاصل نہیں کرتے اور اپنے تجربات اور مشاہدات سے لوگوں کو تسلی بخش تھیوری نہیں بتاتے۔

دور جدید میں سائنسدانوں نے یہ تحقیق سامنے لایا کہ اس خطے کے سمندری تہہ میں اتنے بڑے گڑھے پائے جاتے ہیں کہ ان کا قطر نصف میل جبکہ گہرائی سینکڑوں فٹ ہیں، سائنسدانوں نے ان گڑھوں کی وجہ سمندر کی تہہ میں پائے جانے والی میتھین گیس کو قرار دیا، جب تہہ سمندر میں یہ گیس بڑی مقدار جمع ہو جاتی ہے تو ان کے دباؤ سے سمندر میں تہہ پھٹ جاتے ہیں اور نتیجے میں وہاں بڑے بڑے گڑھے پیدا ہوتے ہیں، میتھین گیس کے دھماکوں کی وجہ سے سمندری پانی کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اور جس کے نتیجے میں تیرنے والے بحری جہازوں کو نگلنے کا سبب بنتی ہے اور میتھین گیس کی وجہ سے اڑنے والے طیارے بھی سمندر میں جا گرتے ہیں۔

یہاں برمودہ ٹرائی اینگل کا داستان بیان کرنا اس لئے ضروری سمجھا کیونکہ ہمارے ہاں بھی ایک برمودہ ٹرائی اینگل موجود ہے دنیا اس سے بے خبر ہے یاکہ مفادات کی خاطر آنکھیں پھیر رہا ہے، یہ ہے مملکت خداداد پاکستان جوکہ بلکل برمودہ ٹرائی اینگل سے بھی زیادہ انسانی زندگی کیلئے پر پُراسرار خطہ ہے، اس سے ملنے والا خطہ بلوچستان کا داستان بھی برمودہ ٹرائی اینگل سے قدرے مشترک ہے، برمودہ ٹرائی اینگل میں کشتیاں مسافروں سمیت پراسرار طور لاپتہ ہونا اور ان کا نام و نشان تک نہ ملنا اور یہاں بھی لوگوں کو خلائی مخلوق کا پراسرار طور پر لاپتہ کرنا اور ان کا کوئی اتہ پتہ نہ ہونا، بلوچوں کیلئے ایک برمودہ ٹرائی اینگل سے زیادہ خطرناک خطہ بن چکا ہے۔ برمودہ ٹرائی اینگل میں بحری جہاز پر سوار پانچ سو کے قریب لوگوں کا لاپتہ ہونا پھر کشتیوں کے چند باقیات ملنا اور یہاں ہزاروں لوگوں کا لاپتہ ہونا اور پھر اجتماعی قبروں، ویرانوں اور آبادیوں سے دور کچھ کا باقیات ملنا بھی غنیمت سمجھا جاتا ہے اور ہزاروں کا اب تک کچھ معلوم نہ ہونا کہ انہیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔

یہاں کی خلائی مخلوق بظاہر دیکھائی بھی دیتی ہے اور لوگوں کو سرعام دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں گھروں سے اٹھاکر لاپتہ کرتے ہیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کیونکہ برمودہ ٹرائی اینگل کی میتھین گیس جیسا ایک ذخیرہ خطہ بلوچستان میں بھی ہے، جس کو سوئی گیس کہا جاتا ہے اور روز اس گیس کے پائپ لائنوں سے دھماکے کی وجہ سے بلوچستان میں گڑھے پڑ جاتے ہیں، شاید یہ خلائی مخلوق انہیں پراسرار طور پر ان گڑھوں میں گرا دیتے ہیں، لیکن یہاں کی باسیوں کی بدبختی یہ ہیکہ سائنسدانوں کی کمی ہے اور نیوز چینلوں کی من مانی ہے، یہاں کے برمودہ ٹرائی اینگل کے لاپتہ کئے گئے انسانوں پر تحقیقی خبر نشر نہیں ہوتا اور خبر نشر کرنا تو جرم تصور کیا جاتا ہے تاکہ دنیا ہمارے برمودہ سے بے خبر رہے کہ دنیا کا تیسرا پراسرار ترین خطہ برمودہ ٹرائی اینگل اور ڈراغوں ٹرائی اینگل(ڈیول سی) کے بعد پاک اینگل ہے۔

یہاں ایک اور بات قابل توجہ یہ ہے کہ لوگ اپنے پیاروں کے لاپتہ ہونے پر روز احتجاج اور بھوک ہڑتال بھی کرتے ہیں لیکن کوئی توجہ ہی نہیں دیتا نہ بین الاقوامی میڈیا کی رسائی ہے اور نہ نگلنے والے ریاست کے غیر ذمہ دار میڈیا پرسنز اور کیمروں کی روح اس جانب توجے کو ضروری سمجھتا ہے کیونکہ اِن کے بھی چینلز کی میٹر مقناطیسی شعاعوں کی وجہ سے برمودہ ٹرائی اینگل پر زیرو سمیت جاتی ہے اور کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، بہرحال دنیا کو اِس اینگل کی جانب توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ برمودہ ٹرائی اینگل کے اوپر جہازوں پر سفری پابندی سے پراسرار لاپتہ ہونا اور انسانی زندگی کو درپیش خطرات بند ہوسکتا ہے لیکن بلوچستان میں پراسرار لاپتہ کرنا ہنوز جاری ہے، جب تک اس اینگل کو عالمی دستور یعنی اقوام متحدہ کی چارٹر کے مطابق پابند نہ کیا جائے کہ انسانوں کو انسان ہونے کا حق دیا جائے اور انہیں حق کی آواز سے یوں لاپتہ کرنا آپ کے اور دنیا کے دستور و قانوں میں جرم ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔