براس اتفاق یا سنجیدہ فیصلہ
تحریر۔ جیئند بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ راجی آجوئی سنگر بڑی تبدیلی، مثت قدم اور قبضہ گیریت کے بعد اہم موڑ ہے، اگر یہ ایک سنجیدہ فیصلہ اور طویل ترین غور و فکر کا نتیجہ ہے۔
اس سے قبل بلوچ مزاحمت کے فکری ستون، بی ایل ایف و بی ایل اے نے اشتراک عمل کا اعلان نا صرف کیا تھا بلکہ سالوں کی باہمی چپقلش، رنجش، عداوت حتیٰ کہ آپسی جنگ کے عین قریب پہنچنے تک کے باوجود اچانک اشتراک عمل کو مشترکہ کاروائیوں کی شکل دے کر حوصلہ بخش پیغام پہنچایا تھا۔
درمیانی عرصے میں انا پرست سرداروں کی شاہانہ ذہنیت کے سبب عام لوگوں کا بھروسہ اور بھرم بالکل کمزور بلکہ ختم ہونے کے قریب پہنچا تھا۔ لوگ تحریک کو قومی آزادی کے بجائے انا پرست سرداروں کی بد نیتی کے باعث پیدا شدہ حالات کی وجہ سے ذاتی و خاندانی قد کاٹھ اور قیمت بڑھانے کا زریعہ سمجھنے لگے تھے۔ عام لوگوں کا خیال تھا کہ تحریک اب قومی آزادی کے اصولی پٹڑی سے پھسل کر ذاتی نمود اور لیڈری چمکانے کا سبب بن چکا ہے۔
بی ایس او آزاد و بی این ایم پر بےجا تنقید اور قومی رہنما ڈاکٹر اللہ نظر کی شعوری کردار کشی و بی ایل ایف پر بلاوجہ تنقید کا سلسلہ ایک انا پرست سردار کا اپنے لیئے راہ ہموار کرنا تھا، جس کا مقصد ہی آپ اپنے کو اکیلا رہبر و رہنما ثابت کر کے بالاخر ایک بہتریں قیمت کے عوض تحریک کو رہن کرنا تھا۔
اس بابت بلوچ تحریک سے جڑے سنجیدہ و فکری طبقے نے بارہا کوشش کی اپنی لکھت و تحریروں اور سوشل میڈیا کے زریعے اس امر کو بہتر اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ سردار دراصل تحریک کے معاملے میں نا صرف غیر سنجیدہ ہیں بلکہ موقع کی تلاش میں ہیں تاکہ بہتر قیمت وصول سکیں۔
اس طبقے کی سوچ کو سردار کی جانب پیسوں کے زور پر بنائی پروپیگنڈہ ٹیم سے تقویت مل گئی، جب خود انا پرست سردار نے آخر کار بی ایل اے کے سنجیدہ فکر دوستوں کے خلاف اپنے سوشل میڈیا کو متحرک کرکے اسی طرز پر چیئرمین بشیر زیب و استاد اسلم کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا، جیسا قبل ازیں وہ قومی رہبر کامریڈ ڈاکٹر اللہ نظر کے خلاف کرچکے تھے۔ دراصل یہی وہ وقت اور موقع تھا جب سرداری کی رعونت اور انا پرستی کا بت ٹوٹ گیا، اس کے منصوبے خاک میں مل گئے۔ پیسوں کی بے تحاشا ریل پیل اور طاقت کے برعکس سنجیدہ فکر تحریکی ساتھیوں اور ہم جیسے غریب قلم کاروں کی باتیں سچ ثابت ہوئیں، جو انا پرست سردار کے متعلق ان کی رعونت و خود غرضی کے بارے میں مسلسل بے غرض لکھتے آرہے تھے۔
بی ایل اے اور بی ایل ایف کے اشتراک عمل کے اعلان نے قومی مایوسی کو کچھ حد کم کرنے اور عام لوگوں کو تحریک متعلق حوصلہ دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ تحریک سے متعلق پیدا شدہ بدگمانیوں اور شکوک و شبہات کو دور کرنے میں اشتراک عمل کے اعلان کے بعد مشترکہ کاروائیوں نے بھی حوصلہ بخش فضا قائم کی بعد میں بی آر جی کا اشتراک کی حمایت بھی اہم اور حوصلہ افزا ثابت ہوا۔
اب جبکہ اشتراک عمل سے بڑھ کر مسلح سطح پر ایک جھنڈے تلے جدوجہد کا پیغام دیاگیا ہے، بلاشبہ یہ ایک بڑا اور مثت پیغام ہے اسے کسی کی ضد اور خلاف سے منسلک کرنے کے بجائے خلوص اور اتفاق سے مذید منظم کرنا چاہیے۔
براس کو بی ایل ایف، بی ایل اے اور بی آر جی تک محدود کرنے کے بجائے تمام مسلح محاذ تک پھیلانا چاہیئے، یہ قومی ضرورت ہے اس کی تکمیل لازمی ہے۔ اس پہ کوئی ضد اور ہٹ دھرمی آڑے نہیں آنے دینا چاہیئے۔ کھلے اور کشادہ پیشانی کے ساتھ مسلح محاذ میں سرگرم تمام گروہ اور تنظیموں کے پاس جاکر انہیں ساتھ ملانے کے لیئے کامریڈ ڈاکٹر اللہ نظر کے کندھوں پر تاریخ نے بھاری بوجھ لادا ہے۔ اپنے فکری دوستوں بالخصوص چیئرمین بشیر زیب اور استاد اسلم کے ساتھ مل کر ڈاکٹر کو قومی امنگوں کی حقیقی ترجمانی کے لیئے ایک بڑا موقع ملا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔