اے دشمن مجھ پر ایک احسان کر
تحریر۔ عابد جان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اے دشمن! مجھ پر ایک احسان کر، تیری اس احسان کو میں زندگی بھر بھول نہیں پاؤں گا۔ اے دشمن تُو آج مچھ بتا، جب میرے وطن کے بہادر جانثاروں کو اپنے ٹارچر سیلوں میں قید کرکے ان کے جسم پر مختلف قسم کے زخم، کرنٹ کے شاک اور تپتے لوہے کے داغ سے تشدد دیکر، تو موت کے حوالے کرتا ہے تو اس وقت ان نازک جسم کے عاشق کس طرح اپنے وطن کے محبت میں چٹانوں کے طرح مضبوط نظریئے کے ساتھ خوشی سے برداشت کرکے شہادت کو قبول کرتے ہیں؟
اے دشمن! تم کس طرح ان دیوانوں کے ہاتھوں شکست کھاکر ان کو موت کے حوالے کرتے ہو لیکن اپنے مقصد کو حاصل نہیں کرسکتے؟ تُو مجھے بتا کہ یہ نازک جسم، سخت نظریئے کے فرزند تشدد کے باوجود کیسے اپنے مقصد پر ڈٹے رہتے ہیں، جب آپ ان کے نازک جسموں کو مسخ کرتے ہو تو یہ عاشقِ وطن کس جذبے کے ساتھ شدید تشدد کو برداشت کرکے اپنے مقصد سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹتے؟ تُو مجھے بتا یہ کیسے عشق کے فلسفے پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہوکر اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں؟ یہ کیسے کئی دنوں اور مہینوں کے بھوک اور پیاس سے نڈھال ہوکر بھی اپنے وطن کی دفاع کرتے ہیں۔ ان کے جسم میں کونسا خون گردش کررہا ہے کہ جسم پر ہر قسم کے تشدد کو برداشت کرکے اپنے نظریئے پر قائم رہتے ہو۔ آخر یہ دیوانے کس حد تک جنون میں تھے کہ آپ ٹارچر سیل سے ان کے مسخ شدہ لاشیں نکالتے تھے۔ آپ لوگوں کو یہ دیوانے کس حد تک مجبور کرتے تھے کہ آپ لوگوں نے انہیں موت کے سپرد کیا؟
اے دشمن! آج میں اپنے ان مریدوں کے دن کو منا رہا ہوں، آج تُو مجھے ان مریدوں کے ٹارچر سیل کی داستان سنا۔ میں آپ کے ہونٹوں کو چوم لوں گا جب تُو میرے ان شہداء کے بہادری کے قصے سناؤگے کس طرح یہ بہادر اکیلے جس کے ہاتھ پاؤں بندھے اور آنکھوں پر پٹی بندھی ہو، ایک گروپ کے تشدد کواپنے کمزور بدن پر برداشت کرتا ہے؟
تُو میرے لئے دھرتی کے لخت جگر شہید قمبر چاکر کے ٹارچر سیلوں کے قصے بیان کر، کیسے اپنے لاغر بدن پر آپ کے تمام اذیت برداشت کرکے اپنے مادر وطن کے دفاع میں ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ آخر کار آپ بزدلوں کے ٹارچر سیل سے میرے قمبر جان کا جسم ہمیں ملا، جس میں تو سانس نہیں تھا لیکن نظریہ اور زیادہ پختہ تھا۔ تُو میرے قمبر جان کے ان لمحات کو بیان کر کہ کس طرح آپ لوگوں کے سامنے آپ کے تشدد سے اپنے زندگی کے آخری سانسوں تک آپ کے لوگوں کو ان کے مقصد میں ناکام کردیا تھا۔
اے دشمن! تُو مجھے نوجوان الیاس نظر کے ٹارچرسیل کے دنوں کے واقعات سنا۔ آخر یہ اتنے کیسے اپنے مقصد پر مضبوط تھے کہ ان کو آپ کے تنگ و تاریک ٹارچرسیل بھی، جہاں بیٹھنا بھی مشکل ہے انہیں ہرا نہیں سکے۔ بس تُو مجھے ان کے زندگی کے ان لمحات کو سُنا جب آپ اس کے نازک جسم پر تپتے لوہے کے زخم دے رہے تھے، وہ کیسے اپنے مادر وطن کو یاد کرکے تمام زخم اور تشدد کو خوشی سے برداشت کررہا تھا۔
تُو مجھے میرے لیڈر، راہشون غلام محمد، لالا منیر اور شیر محمد کے ان تین دنوں کے لمحات بتا، جو تم لوگوں کو اتنی جلدی شکست دیکر ہمشہ کیلئے تاریخ میں ایک زندہ نام سے سرخ رو ہوئے۔ وہ تو پوری دنیا جانتی ہے کہ ان کے بہادر کردار اور عمل نے پہلے سے آپ لوگوں کو مات دی تھی، اس لئے آپ لوگوں نے اپنے بزدلانہ حرکتوں اور تشدد سے ان کو تنگ و تاریک کال کوٹھڑیوں میں قید کرکے ان کو شہید کیا۔
اے دشمن! تُو مجھے میرے کمسن وحید بالاچ کا واقعہ سنا کہ آخر کار اس کمسن بچے نے کیسے آپ لوگوں کو شکست دیا؟ آپ کے بزدل لوگ نے اس ننھے پھول کو پاؤں سے روندھنے اور مسل کر ختم کرنے کی ایک ناکام کوشش کی لیکن اس پھول کے نظریے کے خوشبو پوری بلوچستان میں پھیل گیا۔ تو مجھے بتا کہ جب آپ لوگ اس کمسن بلوچ فرزند کے نازک جسم پر گرم استری کو رکھے ہوئے تھے، تو وہ کیسا لمحہ تھا؟ کیسے قربانی کے فلسفہ کو عملی جامہ پہناکر آپ لوگوں کے انسان دشمنی کو پوری دنیا کے سامنے عیاں کیا۔ بھلے عمر کے لحاظ سے میرا بالاچ جان چھوٹا تھا لیکن اس کا سوچ و فکر پہاڑوں کے چوٹیوں کو پار کررہا تھا۔ مجھے یقین ہے آپ بزدلوں کے انسانیت سوز اذیت اپنے نازک بدن پر سہہ کر اپنے منہ سے اُف کی جگہ وطن کہا ہوگا۔ بس تُو مجھ پر اتنا احسان کر ان وطن کے سچے عاشقوں کے آپ تشدد کو سہتے ہوئے اپنے زندگی کے آخری سانسوں میں اپنے منہ سے نکالے زرین اقوال کو بتا، جو موت کو گلے سے لگارہے تھے لیکن اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے۔
آپ لوگوں نے میرے مخلص رہنما شفیع بلوچ پر اپنے تمام تر مظالم ڈھاکراس کے جسم کو تو مسخ کردیا لیکن اس کے سوچ و فکر کو کیوں مسخ نہیں کرسکے۔ آخر اس فرزند کے پاس وہ کونسا ہتھیار تھا جس سے اپنے مقصد کا دفاع کرتے ہوئے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امر ہوگیا۔
تُو مجھے بتا میرا سنگت ثناء بلوچ تو آپ کے قید میں تھا۔ وہ خالی ہاتھ تھا وہ تنہا آپ لوگوں کے اذیت برداشت کررہا تھا، آخر اس نے وہ کونسے تاریخی الفاظ دہرائے تھے جوکہ آپ لوگوں کو اتنا خوفزدہ کررہے تھے کہ اس کے جسم پر کلاشنکوف کی پوری برسٹ خالی کرڈالی۔ میرے سنگت کے جسم کو گولی سے چھلنی کردی لیکن اس نے وطن پر قربان ہونے کے فلسفے کو زندہ رکھا۔
اے دشمن! آجا آپ آج میرے ان شہداء کے دن پر مجھ پر یہ احسان کر مجھے ان وطن کے سچے جانثاروں کے بہادری کے قصے سنا۔ وہ قصے جن کے وجود آپ لوگوں کے کال کوٹھڑیوں میں روبہ عمل ہوئے۔ ان تاریک کوٹھڑیوں میں یہ وطن کے سچے عاشق کیسے کئی دنوں میں مہینوں کے ٹارچر اپنے پھول اور پیاس سے نڈھال بدن پر برداشت کیئے ہوئے تھے۔
آج بتا مجھے میرے قومی شعور پھیلانے والے استاد حمید شاہین بلوچ کے داستان، جو آپ لوگوں کو آپ کے ٹارچرسیل کے اندر شکست دیتا رہا۔ آپ کے اس عمل کو ناکام کردیا، جس سے آپ اس علم و عمل اور قومی جذبے سے سرشار روشن چراغ کو بجھانے کی کوشش کی تھی۔ تُومجھے بتا میرے وطن کے اس لیڈر کو اذیت دیکر اسے مقصد سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کے دوران وہ کیسا فاتح بن کر ٹارچرسیل سے نکلے۔ اس کے نظریہ، بلوچستان کے نوجوانوں کے وجود میں پیوست ہوگیا ہے۔ ان کے وہ آخری الفاظ جو آپ لوگوں کے سامنے زخموں سے چور جسم کے ساتھ خوشی سے موت کو گلے لگاتے ہوئے آپ لوگوں کو شکست دیتے ہوئے کہے تھے۔
مجھے میرے بابو علی شیر کرد کا ذرا بتا، اس نے کیسے اپنے ماتھے پر آپ کے ڈرل مشین کو وطن کی آزادی کیلئے قبول کیا تھا، لیکن اپنے اس سوچ سے پیچھے نہیں ہٹا۔ بتا مجھے جب آپ کے بزدل سپاہیوں نے تنگ ٹارچر سیل میں میرے کمانڈر بابو علی شیر کرد کے جسم کو مسخ کررہے تھے، وہ کیسے اپنے وطن کا دفاع کر رہا تھا۔ ان لمحوں کا تھوڑا ذکر کر میرے ساتھ اے دشمن۔
بتا تُو کیسے میرے فقیر جان عاجز کوجو اپنے سریلی آواز سے اپنے وطن کے درد کو ان کے فرزندوں کے درمیان بانٹ رہا تھا، کیسے اپنے ٹارچرسیل میں بھوک اور پیاس کا وار کرکے اس کے دل سے وطن کی محبت کو نکالنے کی کوشش کی تھی۔ میرے اس وطن کے فنکار کے زندگی کا آخری لمحوں کا حال سنا، کیسے آپ لوگوں نے فقیر جان کو شہید کرکے اس کے مسخ شدہ لاش کو ویران میں پھینک دیا۔
13نومبر کا دن، میں اپنے ان شہداء کے یاد میں منا رہا ہوں۔ آج کے دن تُو مجھے بتا کہ بلوچستان کے ان فرزندوں نے کیسے آپ کے تمام تر مظالم کو برداشت کرکے اپنے وطن کا دفاع کیا تھا۔ ان ہزاروں شہداء کو تونے اپنے تنگ و تاریک کال کوٹھڑیوں میں رکھ کر، ان پر مختلف قسم کے انسانیت سوز مظالم ڈھاکر پھر بھی تو بلوچستان کی آزادی کے تحریک کو نہیں روک سکا۔ آج بس تو مجھے ان کے ٹارچر سیلوں کے داستان بیان کر۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔