ایک لاپتہ شخص کی کہانی اسکے زبانی ۔ پندران زہری

400

ایک لاپتہ شخص کی کہانی اسکے زبانی

تحریر۔ پندران زہری

دی بلوچستان پوسٹ 

جب سے میں نے اپنا ہوش سنبھالا ہے، تب سے میں سنتا آرہا ہوں کہ فلاں کو اغوا کیا گیا، فلاں کئی سالوں سے لاپتہ ہے، اسی دوران میرا ایک کزن بھی لاپتہ ہوگیا، تو میں یہی سمجھا کہ کسی شک کے بنیاد پر کسی پولیس تھانے میں بند ہوگا تفتیش کے بعد رہا ہوجائیگا، مگر چھ سال گذرنے کے بعد بھی بازیاب نہ ہوسکا۔ اسی طرح لاپتہ افراد کے تعداد بڑھتا گیا اور میرے دل میں کچھ ہمدردی پیدا ہوگئی ان لاپتہ افراد کےلیے، مجھے پتہ نہیں تھا کہ یہ ہمدردی میرے لیئے وبال جان بن جائیگا۔

2018 فروری کا مہینہ تھا، میں کسی کام سے کراچی گیا، اپنے رشتہ داروں کے گھر کچھ دن گذارنے کے بعد میں بازار گیا واپسی پر میں گھر کے قریب تھا کہ سول وردی میں ملبوس کچھ افراد تھے، جیسے میں پہنچا، آواز آئی یہی ہے، وہ مجھے پکڑ کر میرے ہاتھ پاوں اور انکھوں پر پٹی باندھ کر ویگو گاڑی میں جانوروں کی طرح پھینک کر مجھے لے گئے۔ اسی دوران مجھے گالیاں دی گئیں اور بندوق کے بٹوں سے مارا گیا۔ میری آنکھیں تو بند تھیں، مگر اندازاً 35 سے40 منٹ تک کا سفر طے کرنے کے بعد مجھے گھسیٹ گھسیٹ کر کسی زیر خانہ کے اندر لے جاکر ایک چھوٹے سے کمرے میں الٹا لٹکا کر لوہے کی پائپ سے

مار کر سوالات کرنا شروع ہوگئے کہ آپ کا تعلق کس تنظیم سے ہے؟
کتنے دھماکے کیئے ہیں؟
کہاں کہاں تم نے کاروائی کیا ہے؟
کتنے بندے تم نے مارے ہیں؟
کراچی کیوں آئے ہو، کسی کو مارنا ہے؟

میرا جواب یہی تھا کہ میں میٹرک کا طالب علم ہوں، میرا کسی تنظیم سے بھی تعلق نہیں، میں نے کسی کو نہیں مارا، میں صرف اور صرف اپنا پڑھائی کرتا ہوں اور میرا بٹوہ آپ لوگوں کے پاس ہے، جس میں میرے تین کارڈز ہیں، ایک اسکول کا ہے اور دوسرے اکیڈمی کے ہیں، یہ باتیں سننے کے بعد مجھے لاتوں سے مار کر چلے گئے۔

اسی چھوٹے کمرے میں، جس میں ہلنا بھی مشکل تھا مجھے بند رکھا گیا، صبح کی جب آذان ہوئی کچھ دیر بعد کوئی آیا، میری آنکھوں کی پٹی کھول کر آدھا کپ چائے دیا اور کہا جلدی پیو. جب میں نے اپنی دائیں بائیں دیکھا، آٹھ دس کمرے تھے، سب میں ایک ایک قیدی بند تھے، جن کی آنکھوں پہ پٹی اور ہاتھ ہتھکڑی سے بندھے ہوئے تھے۔ مجھے باتھ روم جانا تھا، میں نے آواز دیا مجھے باتھ روم جانا ہے، وہاں سے ایک آدمی اکر میرا ایک ہاتھ کھولا، دوسرے ہاتھ کو زنجیر سے باندھ کر ایک سائیڈ کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر مجھے باتھ روم کے اندر چھوڑدیا، دو منٹ برابر نہیں ہوئے تھے کہ گالیوں کے ساتھ آواز آئی “جلدی کرو میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے” میں نکل گیا، مجھے واپس کمرے میں بندکردیا گیا، انکھوں پہ پٹی باندھ کرچلاگیا، تھوڑی دیربعد گذرنے کے بعد تین آدمی آکرمجھے الٹا لٹکاکر مارنا اور سوال کرنا شروع ہوگئے۔

کس تنظیم سے تعلق رکھتے ہو؟
کس کے لیئے کام کرتے ہو؟
اپ کا کمانڈر کون ہے تمہارے ساتھ اور کون کام کرتا تھا؟

میرا جواب وہی تھا کہ میں طالب علم ہوں، میں کسی کے لیئے کام نہیں کرتا اور میراکمانڈر میرے استاد ہیں، جو اسکول میں پڑھاتے تھے، مجھے صبح کے آٹھ بجے سے لیکر دوپہر کے دو بجے تک الٹا لٹکا کر مار کر مجھ سے سوالات پوچھتے تھے۔ دوپہر کے بعد مجھے نیچے اتارا گیا، درد اور زخموں کی وجہ سے بھوک تو نہیں لگا مگر پیاس بہت لگی تھی، میں نے کہا پانی ملیگا بہت پیاس لگی ہے؟ آواز آئی جب تک تم کچھ بتاوگے نہیں، اسی طرح پیاسے اور بھوکے رہوگے۔

کچھ دیر بعد ایک گلاس پانی، روٹی کے چھوٹے سا ٹکڑے پر تھوڑا سا دال دیا گیا۔ میرا پورا جسم خون سےلت پت تھا، زخموں کی درد سے کھانا کھا نہیں سکا، پانی کا ایک گلاس پی کرتھکاوٹ اور درد کی دیوار پر ٹیک لگاکربیٹھ گیا۔ تو وہاں سے کوئی گالی دیتے ہوئے دروازہ کھول کرمجھے مارنا شروع کردیا، کہنے لگا کھڑے ہوجاو، ابھی اگر بیٹھ گیئے میں تمہیں الٹا لٹکادونگا، یہ کہہ کرچلاگیا، دروازے پر دو آدمی تھے، جب بھی تھوڑا سا ہلنے کی کوشش کرتا وہاں سے گالی دیتے، اس دن پورے آٹھ گھنٹے کھڑے رہنا پڑا۔

اس کے بعد دوسرے دن پھر مجھے کسی اور کمرے میں لے گئے، جب میری انکھوں سے پٹی ہٹایا گیا تو وہاں پر آٹھ سے دس بندے تھے، جنہوں نے مجھے الٹا لٹکا کر مارنا اور سوالات پوچھنا شروع ہوگئے، اتنا مارتے تھے کہ جب میں بے ہوش ہونے کے قریب ہوتا تو مجھے تقریباً 20منٹ چھوڑنے کے بعد پھر مارنا شروع ہوئے۔ اس رات مجھے 9 سے لے کر 2 بجے تک الٹا لٹکا کر مارا گیا، اس دوران بھی میرا جواب یہی تھا کہ میں طالب علم ہوں مجھے کچھ بھی معلوم نہیں ہے اور میں نے یہی کہا اتنا سزا سے بہتر تھا اپ لوگ مجھے مارتے. مختلف سزا دیکر واپس گھسیٹ کر مجھے اس کمرے میں بند کیا گیا کیونکہ میں خود بہت کمزوری کی وجہ سے چل نہیں سکتا تھا. تھوڑی دیر بعد صبح ہوگیا، میں باربار کہہ رہا تھاکہ پانی ملیگا، وہاں سے آواز آیا کہ اب خاموش ہوجاؤ میں مجبور ہوکر خاموش ہوگیا کیونکہ دوبارہ آواز لگانے پر مار پڑتا تھا۔ اس جگہ پر 12دن میں یہی سزا وہی سوالات پوچھتے تھے۔

دوسرے دن صبح 8بجے کا وقت تھا، مجھے کسی صرف گاڑی میں ڈال کر کسی اور جگہ لے جایا گیا، کسی کرنل کے پاس مجھے پیش کیا گیا۔ سوالوں کی بارش ہوگئی مجھ پر، میں نے کہا باقی سب مجھ پر یقین نہیں کررہے تھے بلکہ یہ کریں. میں نے جواب دیا کہ یہ سارے الزام ہیں، آپ لوگوں کو کوئی غلط فہیمی ہوگئی ہے، میں ایک طالب علم ہوں کیوں میری زندگی کو برباد کررہے ہو؟ یہ سب سن کر وہ وہاں سے چلا گیا، اس جگہ پر مجھے تقریبا 3مہینے رکھا گیا۔ اس دوران مجھے مختلف اذیت دیئے گئے. کرنٹ دینا، پانی میں ڈوبانا، الٹا لٹکا کر مارنا، گرم لوہے سے داغ دینا، یہ سب سزا دیئے گئے۔

میں خود پریشان تھا کہ اتنے جگہ تبدیل کرکے مجھ سے کئی سوالات پوچھنا بلاوجہ، کبھی کبھی گھر بھی یاد آتا تھا کہ کئی مہینوں سے غائب ہوں، کہیں ایسا نہ ہو میرے غائب ہونے کا درد نہ سہتے ہوئے، میرا باباجان اس دنیا میں نہ رہے، میرے آنسوں بہہ رہےتھے اور اس سوچ میں گم تھا کہ دروازہ کھول کر مجھے کسی گاڑی میں ڈال کر روانہ ہوئے 5 گھنٹے سفر ک بعد ایک جگہ پہنچ گیئے. وہاں پر بہت شور تھا گاڑیوں کی اور فوجیوں کی جاتے جاتے، وہاں سے کئی قیدیوں کی آواز آرہی تھی کہ پانی دو، مجھے مت مارو اور چیخنے کی آوازوں میں خواتین قیدیوں کی بھی تھیں۔ جن کے عمر مختلف تھے، کچھ دیر بعد مجھے اس جگہ کے کسی کرنل کے سامنے لے گئے، سوال کرنا شروع ہوگیا، میں بھی تھک چکا تھا، باربار انہی سوالوں کے جواب دینے سے تو میں نےکہا اپ لوگ انسان نہیں حیوان ہو، کیوں مجھے ذلیل کرتے ہو میں نے کچھ نہیں کیا ہے۔ میں ایک طالب علم ہوں پھر مجھ سے سوال کیا، میں نے جواب دیا ہاں میں نے یہ سب کردیا ہے جتنے بھی دھماکے، قتل وغیرہ ہوئے ہیں بلوچستان میں یہ سب میں نے کیا ہے. میں بھی جذباتی تھا اور کہا کہ اب مجھے مارو، یہ سب میں نے کیا ہے جواب آیا ٹھیک ہے، آپ کو مارینگے بولو کیا وصیت دینا چاہتے ہو۔

میں نے کہاآپ لوگ انسان تو نہیں ہیں، بس میرا ایک وصیت ہے کہ اگر آپ لوگوں نے مجھے مارا تو میری لاش کو میرے علاقے کے قریب پھینکنا تاکہ میرے گھر والے مجھے دیکھ سکیں۔

کچھ دن گزرنے کے بعد مجھےوہاں سے لے گیئے، اب میں یہی سمجھا کہ اب مجھے ماردینگے، میں نے کہا مجھے کہاں لے جارہےہو کہنے لگا اپ نے جو وصیت کی تھی اس پر عمل کررہےہیں، میں نے کلمہ شریف پڑھنا شروع کردیا۔ کسی میدان میں لے جاکر صرف آنکھوں کی پٹی کھول کر ہاتھوں کو نہیں کھولا اور کہا اب پیچھے مت دیکھنا اگر دیکھا تو ماردینگے۔ میں کلمہ پڑھتارہا کہ وہ اپنے گاڑیوں میں سوار ہوکر چلے گئے۔ میں بھی بہت کمزور تھا، تھوڑا سا چلنے کے بعد گرکربےہوش ہوگیاتھا۔ جب میں نے اپنی آنکھ کھولی تو دو تین آدمی تھے مجھے پانی پلا کر اپنے گھر لےگیئے، میں نے انہیں اپنی کہانی سنائی اور اپنے گھر والوں کو بھی بتایا، کچھ گھنٹوں کے بعد مجھے میرے گھر پہنچایا گیا۔

زندگی میں بہت سے چیزوں کے بارے میں میں نے سوچا تھا لیکن اب کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ میں ایک ہٹا کٹا سا نوجوان تھا، ان ریاست کے آلہ کاروں نے کسی شک کے بنیاد پرمیری زندگی کو برباد کرکے رکھ دیا. آج مجھے جسمانی کمزوری اور دماغی کمزوری بہت ہے، ہر مہینے اپنے ڈاکٹر کے پاس جاتاہوں، ہر مہینے میری دوایاں تبدیل کی جاتی ہیں۔ اب اگرزندہ ہوں تو ان دوایوں کی وجہ سےزندہ ہوں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔