ایک خَط میری پیاری ماں کے نام – بْرمش کرار

1567

ایک خَط میری پیاری ماں کے نام

بْرمش کرار

دی بلوچستان پوسٹ

میری ماں! آپ میرے لیے جَنّت کا درجہ رکھتی ہیں، لیکن میری زمین اور اُس زمیں پہ چھایا ہوا آسماں، گوادَر کا زِر، چاغی کا جلا ہوا سینا، شال کا لاثانی موسم، پنجگور کی مہکتی نسیم، زاہدان کی گلیاں، میری زمین کا ہر ایک پھتر، میری وادیاں اور میرے دیس کا ہر ایک پتّہ مجھے ساری دنیا سے زیادہ عزیز ہے۔

ہم ایک عظیم سرزمین کے وارث، جو وسائل سے بھری پڑی ہے لیکن اس سرزمین پر کسی اور نے قبضہ کیا ہوا ہے، ہمیں زنجیروں میں جکڑ کر اپنے ہی دیس میں غلام بنایا گیا، شعور و آگہی سے کوسوں دُور ہمیں بے عملی کے اندھیرے کوٹھڑیوں میں رکھا گیا، جب بھی ہم نے آگہی کی طرف بڑھنے کی کوشش کی ہمارے اوپر جسمانی و نفسیاتی اذیت کے پہاڑ توڑے گئے، ہم قتل کر کے پھینک دیے گئے۔

آپ کو شاید علم نہ ہو اسی سرزمین کے 30 ہزار سے زائد واسی جن میں بچے، بوڑھے اور عورت شامل ہیں اُٹھا کر لاپتہ کر دیئے گئے. 12 ہزار سے زائد بلوچوں کو شہید کیا گیا۔

ماں! کیا آپ کو یاد ہے جب بچپن میں میں چوری کرتے پکڑا گیا، تو آپ نے مجھے تھپّڑ مار کر سمجھایا کہ چوری ایک جرم ہے اور جو چور کو چوری کرتے دیکھے اور کچھ نہ کہے وہ بھی اُس جرم میں برابر کا شریک ہے، تو ہماری سرزمیں سے ہزاروں ٹن معدنیات کی چوری پر اگر ہم کچھ نہ کہیں تو کیا ہم بھی اُس جرم میں شریک نہ ہوئے؟

وقت کے تقاضے ہے اور وقت کسی کے لیے بھی نہیں رُکتا، میرا بھی دل کرتا ہے کہ میں آؤں آپ کا دیدار کروں اور سمجھاؤں لیکن پھر مجھے وہی بات یاد آجاتی ہے کہ جب میں نے آپ سے کہا تھا کہ میں یہاں نہیں رہ سکتا تو آپ نے کہا کہ اگر جاتے وقت تم دشمن کے سامنے سلامی دیتے اور چلے جاتے تو تم آج واپس آ سکتے تھے اگر آپ باور کریں تو آپ کی اس بات نے مجھے توڑ دیا شدید درد میں آنکھیں نم ہوگئیں، ماں! آپ نے کیا کہہ دیا۔

آپ میرے لیے پیغمبر کا درجہ رکھتی ہیں، میں نے صحیح غلط کے درمیاں فرق کرنا آپ سے سیکھا ہے، نہ جانے مجھے کیوں یقین نہیں ہوتا کہ آپ نے ایسا کہا، شاید آپ کو ڈر ہے کہ میں مارا جاؤں گا، مجھے بھی لاپتہ کر کے زندان میں رکھا جائے گا لیکن ماں آپ اپنی جگہ پر شاید غلط بھی نہ ہوں، ہر ماں کی یہی خواہش ہیکہ اُس کا بیٹا ایک اچھا اور بڑا آدمی بنے لیکن ماں انسان کو مال، دولت اور پیسہ بڑا نہیں کرتا۔ انسان کو اس کا کردار بڑا بناتا ہے۔ شاید آپ کو ڈر ہے کہ سب مجھے غلط کہیں گے اور آپ کو برداشت نہیں ہوگا کہ کوئی مجھے غلط کہے لیکن میری ماں کرنے کو یہاں کچھ بھی آسان نہیں لیکن کسی نہ کسی کو تو کرنا پڑے گا نا، پھر آپ کہیں گے کہ میں ہی کیوں؟ کیونکہ میں کسی نہ کسی کا حصہ ہوں اگر سبھی “میں کیوں” کہہ کر منہ پھیر دیں تو کون بچے گا؟

ماں! کیا میں آپ سے کچھ پوچھ سکتا ہوں کیا آپ کو بلوچ کی بے وسی اور در بہ دری نہیں دکھتی؟ یا آپ ڈر کی وجہ سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ میرے خیال میں اگر کسی کو صحیح اور غلط کا ادراک ہوجائے تو اسے ڈرایا نہیں جاسکتا شاید آپ بھی لاعلم ہوں.

آج میں جا رہا ہوں، شاید کبھی واپس نہ آؤں، میری چھوٹی بہن شاید اب بھی مجھے نہیں جانتی کیونکہ وہ صرف 21 دن کی تھی جب میں گھر سے نکلا تھا اور بڑی اگر کبھی پوچھے تو مجھے یقین ہیکہ آپ کی آنکھیں نم ہونگی، کیونکہ جب میں پردیس کے لیئے گھر سے نکل رہا تھا، تو میں آپ کی بے قراری کو محسوس کر رہا تھا، میں نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح آپ نے اپنے آنسو کیسے چُھپائے جب میں دروازے سے نکلا تو آپ اسی دروازے کے پاس تب تک کھڑے تھے جب تک میری نظریں وہاں تک پہنچ پا رہیں تھیں۔

اب آپ یہ سمجھ کر نہ رویں، مجھے تو آپ نے پہلے ہی الوداع کہہ دیا تھا۔

ایک بات کہوں اب مجھے زمین سے پرے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا، آپ کو شاید یاد ہو آپ نے کہا تھا کہ زمین نے مجھے دیوانہ و پاگل بنا دیا ہے، ہاں ماں! اب مجھے بھی علم ہے کہ میں اس عظیم سرزمین کا دیوانہ ہوں۔

آپ نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ اگر بلوچستان آزاد ہوا، تو یہ سردار ہمیں پھر روند دینگے ہم پھر غلام ہونگے لیکن میری پیاری ماں! میں ایک ایسے بلوچستان کے لیے جد و جہد کر رہا ہوں، جہاں سب کو ایک ہی نظر سے دیکھا جائے گا، جہاں نہ سردار اور غریب کے لیے انصاف کا معیار ایک ہوگا، جہاں نہ کوئی رِند و لاشار ہوگا نہ کسی کو غلام کہا جائے گا اُس سماج میں سب بلوچ ہونگے اور سب برابر ہونگے۔

لیکن ماں آج میں مارا جاؤں گا یا کال کوٹھڑیوں کی زینت بنوں گا لیکن میری آنے والی نسل ایک خوشگوار اور آزاد فضا میں سانس لے سکے گی۔

آج وہ مجھے ماریں گے، مجھے لاپتہ کردیں گے لیکن یہ میرا ایمان ہے کہ کل آپ کو کوئی روڈ پر چیک کرکے یہ نہیں پوچھے گا کہ کہاں جا رہے ہو، کل کوئی ماں اپنے لاپتہ بچے کے لیے انتظار نہیں کرے گی کہ کب زندان یا جلاوطنی سے واپس آئے۔

اور ماں! آپ صرف میری ماں نہیں، مجھ سمیت ہزاروں طلبا کے معلمہ ہیں، آپ پر ہزاروں طلباء کو تعلیم دینے کی عظیم ذمہ داری ہے اور مجھے یقین ہیکہ آپ بھی علم و آگہی کے چراغ روشن کریں گے، جو ان اندھیرے کوٹھڑیوں میں پڑے بے وسوں کو راہ دکھائیں گے۔

پیاری ماں! میں نہیں دیکھ سکتا کہ کل کو شہیدوں کے ماؤں کے درمیاں آپ کا سر نیچے ہو، میرے لیے پریشاں مت ہونا بس دعا کریں جب واپس آؤں گا تو پھر خوشی سے بیھٹیں گے پھر والد کو ستائیں گے اور پھر آپ مجھے خوب ڈانٹیں، گلہ کریں۔

اگر میں نہ لوٹا تو میرے لیے فکرمند نہ ہونا، میرے لیے مت رونا، اور میری راہ مت تکنا
اب زمین میرا مسکن ہے اور آسمان میری چھت…!

اللہ حافظ

الوداع میری پیاری ماں

آپ کا نافرمان بیٹا

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔