ایک بہن کا خط اپنے گمشدہ بھائی کے نام
تحریر۔ آزرمراد
دی بلوچستان پوسٹ
بھائی جان! مجھے نہیں پتہ کہ آپ کہاں ہیں، کس حال میں ہیں اور کس لیئے اس حال میں ہیں؟ لیکن میں اتنا جانتی ہوں کہ میں جو کچھ بھی لکھ رہی ہوں شاید آپ تک کبھی بھی نہیں پہنچ پائے گی کیونکہ یہاں مظلوموں کی باتیں سننے کے لئے کسی کے کانوں کو فرصت نہیں ملتی. یہاں سننے والوں کا یہ تقاضہ ہے کہ سہنا سیکھو تاکہ سنانے کی نوبت نہیں آئے.
میں کس کو سنناؤں کس سے کہوں کہ سہنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے، جب سب کچھ برداشت سے باہر ہو تو کب تک کوئی چپ رہ سکتا ہے، کب تک کوئی آنکھوں پر پٹی اور زبان پر تالا لگا کر ایک ایسی زندگی گذار سکتا ہے جس سے موت ہزار درجہ بہتر ہو. لیکن پھر بھی آپ نے کیوں نہیں سہا کیوں آنکھوں پر سے پٹی اتارنے کی جرت کی، کس لیئے زبان کھولا؟
کیا آپ کو نہیں پتہ تھا کہ یہاں ہر وہ لفظ جو حکمرانوں کے کانوں کو بری لگے اس کا منہ سے باہر نکلنا ایک جرم ہے؟ کیا آپ یہ نہیں جانتے تھے کہ ان آنکھوں کو صرف وہ دیکھنے کی آزادی ہے جو کہ دکھایا جاتا ہے. اگر آپ یہ سب جانتے ہوئے بھی اس جرم میں مبتلا ہوئے ہیں، تو آپ کو اُسی کی سزا مل رہی ہے اور یہ سزا صرف آپ نہیں بلکہ ہر وہ شخص جھیل رہا ہے، جس کا آپ سے کوئی تعلق ہے. شاید آپ کو اس سزا کی سنگینی کا احساس نہیں لیکن مجھے ان چند دنوں میں یہ احساس ہوگیا ہے کہ جب بھی کسی ایسے گہنگار کو سزا دی جاتی ہے، تو اس کے ساتھ اس کے خاندان کے سارے افراد کو یہ سزا سہنی پڑتی ہے. جس طرح آج میں سہہ رہی ہوں.
بھائی جان! شاید آپ کو نہیں پتہ کہ آپ کے بعد میں اس سزا کو بھگتتے بھگتتے چند سنسان سڑکوں کی ٹھنڈی ویرانیوں میں کھو گئی ہوں. کچھ انجان چہرے جو کہ میرے لئے اجنبی ہیں، روز ہاتھوں میں کیمرے اٹھائے میرے اور مجھ جیسے کئی اور بہنوں کے گرد منڈلاتی رہتی ہیں. ان میں سے کچھ کو ہم پر ترس آتا ہے اور کچھ کو غصہ، کوئی ہم سے ہمدردی جتاتا ہے تو کوئی دھمکیاں دیتا ہے. کچھ ایسے ہیں جو ہمارے آنسوں کے درد میں لپٹی ہوئی صداؤں سے اٹھتی ہوئی ٹھیس کو محسوس کرتے ہیں اور کچھ ان ٹھیسوں سے اپنا مطلب نکالنا چاہتے ہیں. لیکن کوئی بھی میرے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا. کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ آنسو پونچھ لو، تمہارے بھائی کو کچھ نہیں ہوگا.
میں ان آنکھوں کا سامنا نہیں کر سکتی اور نہ ہی مجھے ان سنسان سڑکوں کی ٹھنڈی ویرانیوں میں بھٹکنے کا شوق ہے. پر میں کیا کروں کس طرح خود کو یہ دلاسہ دوں کہ آپ سلامت ہیں؟ کس طرح خود کو یہ تسیلی دوں کہ میں پھر سے آپ کو دیکھ سکوں گی؟ کس طرح اپنے آپ کو مناؤں کہ آپ واپس آئیں گے؟ مجھے ان آنکھوں، کیمروں، سنسان سڑکوں اور ٹھنڈی ویرانیوں سے کوئی شکایت نہیں اگر یہ آپ کو مجھ تک پہنچا سکتی ہیں تو میں ان سب کو عمر بھر جھیلنے کے لئے تیار ہوں. میں ساری زندگی ان سڑکوں پر یونہی روتی تڑپتی رہ سکتی ہوں بس آپ واپس آپ جائیں. بس آپ واپس آجائیں۔
فقط آپکی بہن
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔