ایک بہن کا خط اپنے گمشدہ بھائی کے نام
( دوسری قسط)
آزرمراد
دی بلوچستان پوسٹ
پہلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
بھائی جان! میں نے سوچ لیا ہے کہ جب تک میری التجا ساتوں آسمانوں کو چیرتے ہوئے عرش تک نہیں پہنچے گی، میں گھر نہیں جاؤں گی اور نہ ہی ان ویران سڑکوں سے اٹھوں گی. شاید یہ بات آپ کو گوارا نہ ہو کہ آپ کی پھول جیسی بہن جو کبھی بھی اسطرح سڑکوں پر ماری ماری نہیں پھری اس حال میں یہاں تڑپتی رہے. لیکن میں پھر بھی تڑپتی رہوں گی. اور تب تک تڑپوں گی جب تک کوئی مجھ کو تمہارے سلامتی کی خبر نہ دے. مجھے پتہ ہے کہ تم مجھ سے زیادہ تڑپ رہے ہو. تمہاری اذیتیں میری اذیتوں کے مقابلے میں کچھ نہیں ہیں لیکن میں کیا کروں کس ادارے کا دروازہ کھٹکھٹاؤں، کس سے التجا کروں؟ کون میری سنے گا. یہاں قانون کے ترازو میں صرف وہی تولا جاتا ہے جو کہ ان قانونی کوٹ والوں کو روٹی دے سکے. یہاں قانونی بت کے آنکھوں پر جو پٹی لگی ہوئی ہے، اس میں سے کچھ بھی نظر نہیں آتا. بڑے لوگ، بڑے افسرز، بڑے ملازم سب یہی کہتے ہیں کہ وہ اپنے بڑوں سے بات کریں گے اور سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن مجھے نہیں پتہ کہ وہ بڑے کون ہیں، جو ان بڑوں سے بھی بڑے ہیں.
بھائی جان! آپ کو پتہ ہے کہ یہاں پر روز کوئی میری طرح کسی اپنے کی تصویر لئے بھٹکتی بھٹکتی آ جاتی ہے اور ہم سب مل کر اسے دلاسہ دیتے ہیں. لیکن ان دلاسوں میں کچھ بھی سچائی نہیں ہوتی، یہ صرف چند جھوٹی باتیں ہوتی ہیں، جنہیں میں نے آپ کی گمشدگی کے بعد ہر کسی کے زبان سے سنا ہے. اس کو بھی پتہ ہے کہ ان دلاسوں میں کوئی سچائی نہیں لیکن وہ بھی ہماری طرح خود کو منانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں کہ واقعی کچھ ضرور ہوگا. ہاں کچھ ضرور ہوگا…. (آنسو کا ایک قطرہ کاغذ پر گرتا ہے)
بھائی جان! کل ہمارے پاس کچھ بلوچ آئے تھے، شاید وہ طالبعلم تھے ان کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ وہ پڑھے لکھے ہیں. ان سب نے ہم سے ہمدردی جتائی، کچھ باتیں کی، کچھ گالیاں اس بوسیدہ نظام کے خلاف منہ سے نکالی اور پھر ایک ایک تصویر لیکر چلے گئے. کل انہی تصویروں سے کچھ سوشل میڈیا میں گردش کرتی ہوئی دیکھائی دی جن کے نیچے Save baloch people , بلوچوں کے ساتھ یہ ظلم آخر کب تک اور چند انقلابی شاعروں کی شاعری دیکھائی دی لیکن ان میں سے کسی میں بھی وہ درد یا وہ تکلیف نہیں دیکھائی گئی تھی جو کہ میں برداشت کر رہی ہوں، جو کہ ہر وہ بہن برداشت کر رہی ہے جس کا بھائی کسی نامعلوم جگہ پر موت اور زندگی کی لڑائی میں قید ہے. ان میں کچھ بھی ایسا نہیں تھا جس سے یہ ظاہر ہو کہ ان لوگوں کو میری تکلیف کی پرواہ ہے، تمہاری پرواہ ہے یا ان سب بلوچ مسنگ پرسنز کی پرواہ ہے جن کے لواحقین اس ٹٹھرتی سردی میں اپنا آنچل لئے روز مرتی اور زندہ ہوتی ہیں. ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ سب ہمدردی جتانے کے بہانے میرا مزاق اڑا رہی ہیں، مجھے طعنہ دے رہی ہیں کہ دیکھو آج ہمیں پھر کوئی مل گیا جس کی کمزوری اور بے بسی کا فائدہ اٹھا کر ہم اپنے نام کی چمک کچھ اور تیز کر سکتے ہیں. لیکن مجھے ان سے کوئی شکایت نہیں اور نہ ہی میں ان کو حقارت کی نظر سے دیکھوں گی. کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ یہاں درد کا احساس صرف اس کو ہوتا ہے جس نے درد جھیلا ہو. جس نے اسے محسوس کیا ہو. اور ان میں وہ احساس ہی نہیں ہے کہ یہ کسی کا درد محسوس کر سکیں.
بھائی جان! کچھ پریس والے اپنے حصے کا مصنوعی احساس بانٹنے آئے ہیں، اس لئے میں آپ کو بعد میں باقی باتیں لکھوں گی.
ابھی جاتی ہوں
فقط آپکی بہن
جاری ہے
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔