ہم بلوچ بیٹیوں کے احتجاج کا مقصد ہمارے درد، کُرب اور تکالیف کو آپ کے گوش گزار کرنا ہے جو ہمیں اپنے ہی ریاستی اداروں نے دیئے ہیں – لاپتہ عامر بلوچ کے لواحقین
دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں خاران سے لاپتہ طالب علم عامر بلوچ کے لواحقین نے شرکت کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور اس موقعے عامر بلوچ کی بہن نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرا بھائی عامر بلوچ کسی بھی سیاسی یا مذہبی پارٹی سے تعلق نہیں رکھتا ہے جبکہ وہ پولی ٹیکنیک کالج کوئٹہ میں سیکنڈ ایئر کا طالبعلم تھا جنہیں گزشتہ سال 3فروری 2017کو فرنٹیئر کوراور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے ہمارے گھرپر چھاپہ مارکراس وقت لاپتہ کردیاجب و ہ کالج کی چھٹیوں میں گھر آیا تھا ۔انہوں نے مزید کہا کہ اس اغواء نما گرفتاری کے خلاف ہم نے ایف آئی آر درج کیا اورخاران فرنٹیئر کور کیمپ سے رابطہ کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ معمول کی تفتیش کیلئے انہیں لایا گیا ہیں اور جلد رہا کیا جائے گا لیکن عامر تاحال لاپتہ ہے۔
لواحقین نے کہا کہ ہم نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکٹایا لیکن وہاں سے بھی ہمیں انصاف نہیں ملا کیونکہ ذمہ دار ‘ اداروں نے صاف انکار کردیا کہ ہمیں علم نہیں ہے جس کے بعد ہم نے ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان میں اپنا کیس دائر کیا لیکن اب تک آٹھ پیشیوں کے باوجود کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی ہے اور نہ ہی ہمیں ہمارے بھائی کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ تمام ایم پی اے، ایم این اے اور ہر درپے حاضری دینے ،رونے گڑ گڑانے کے بعد بھی ہمارے ہاتھ خالی ہیں جبکہ انہوں نے سوال کیا ہمارے لیے احتجاج کے علاوہ کونسا راستہ چھوڑا گیا ہے اور ہم کہا جائیں ، کس سے اپنے بے گناہ بھائی کی زندگی کی بھیک مانگیں؟
انہوں نے کہا کہ یہاں عدالت، وزراء، عوام سب خاموش ہیں اور اس خاموشی اور بے حسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرے دادا دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے اور میری ماں عارضہ قلب میں مبتلا ہے۔ میرے خاندان وا لے ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں۔ ہمارا قصور کیا ہے، ہمیں کیوں روز ایک موت مارا جارہا ہے؟ہمیں پتہ بھی نہیں کہ ہمیں اپنے بھائی کے موت کے سوگ میں بیٹھنا ہے یا زندگی کی دعا کرنی ہے۔
انہوں کہا کہ اگر میرے بھائی نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔ہم اس زندگی سے تنگ آچکے ہیں۔ دوسال سے اس ذہنی کوفت نے ہمیں پل پل موت دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ہمیں ڈیم اور ریکوڈک پر حق نہیں بلکہ لاپتہ افراد چاہیئے – ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی
لواحقین نے عندیہ دیا کہ اگرعامر بلوچ کو رہا نہیں کیا گیا تو ہم وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا دینگے اور بھوک ہڑتال پے بیٹھے گے اور ہم امید کرتے ہیں کہ ایک انسان ہونے کے ناطے آپ ہمارا ساتھ دینگے اور ہم تمام انسانی حقوق کی تنظیموں، انسان دوستوں اور عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمارا ساتھ دیں۔
دریں اثناء لاپتہ نصیر بلوچ کی 6 سالہ بیٹی مارنگ بلوچ نے ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے والد ایک سال سے لاپتہ ہے جن کی بازیابی کیلئے میں آج بروز سوموار سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھونگی۔
واضح رہے نصیر بلوچ بی ایس او آزاد کے سینٹرل کمیٹی کے ممبر تھے جبکہ ان کی بیوی زبیدہ بلوچ کا کہنا ہے کہ نصیر بلوچ کو15نومبر 2017 کو کراچی میں یونیورسٹی روڈ سے ان کے دوستوں ثناء اللہ بلوچ، حسام بلوچ اور رفیق بلوچ کے ہمراہ رینجرز اور سادہ کپڑوں میں ملبوس سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا گیا تھا۔ اس واقعے کو ایک سال کا عرصہ ہورہا ہے لیکن میرے شوہر اور ان کے دوستوں کو منظر عام پر نہیں لایا گیا اور نہ ہی ان کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات دی جارہی ہیں۔
زبیدہ بلوچ کا مزید کہنا ہے کہ میں اس واقعے کی چشم دید گواہ ہوں کہ میرے اور میرے بچوں کے سامنے رینجرز اور سادہ کپڑوں میں ملبوس سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں نے میرے شوہر نصیر بلوچ کو ان کے دوستوں ثناء اللہ بلوچ،حسام بلوچ اور رفیق بلوچ کے ہمراہ حراست میں لیا تھا۔
علاوہ ازیں لاپتہ مہر گل مری کے لواحقین نے بلوچ لاپتہ افراد کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں شرکت کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور اس موقعے پر اس کی بہن نے بات کرتے ہوئے کہا کہ مہر گل مری کو 2015 کو کوئٹہ کے علاقے سریاب سے سیکیورٹی فورسز نے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا ہے جن کی بازیابی کیلئے ہم نے احتجاجی ریلیاں نکالی اور احتجاج کیا لیکن وہ تاحال لاپتہ ہے۔