انسانی حقوق کی تنظیموں شبیر بلوچ کی بازیابی میں میرا ساتھ دیں – سیما بلوچ

202

صحافت کے مقدس پیشے سے وابسطہ ذمہ دار کیوں خاموش ہے؟ چادر و چار دیواری کی پامالی پر واویلہ کرنے والی پارٹیاں دیکھ چکی ہوں مگر آج وہ خود اس جرم میں شریک ہیں۔ آج میں اگر کسی کمپنی کے اشتہاری پروگرام کا حصہ ہوتی تو یقیناًلوگ جوق در جوق مجھے دیکھنے آتے اور میڈیا مالکان مجھ سے خود رابطہ کرتے۔ سیما بلوچ

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں لاپتہ شبیر بلوچ کے ہمشیرہ سیما بلوچ کے احتجاج کو 6 دن مکمل ہوگئے جبکہ شبیر بلوچ و دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائمقام صدر عبدالولی کاکڑ، سابقہ صوبائی صدر غلام رسول مینگل، وومن ڈیموکریٹک فرنٹ کے رہنما ایڈووکیٹ جلیلہ حیدر، سماجی کارکن حمیدہ نور اور بلوچ اسٹوڈٹس آرگنائزیشن آزاد اور بلوچ نیشنل موومنٹ کے کارکنان نے کیمپ کا دورہ کیا۔

سیما بلوچ اور دیگر لواحقین نے کوئٹہ شہر میں شبیر بلوچ کی بازیابی کے حوالے مختلف شاہراہوں پر ’’میری فریاد‘‘ کے عنوان سے پمفلٹ تقسیم کیے۔

پمفلٹ میں سیما بلوچ کا کہنا ہے میں اپنے کمسن فرزند میراث اوربھابی زرینہ کے ساتھ یہ امید لے کر کوئٹہ پہنچی کہ کوہ مردار اور کوہ چلتن کے دامن میں صدیوں سے آباد بلوچ اور پشتون تاریخی اعتبار سے ایک منفرد مقام اور حیثیت رکھتے ہیں۔مگر آج میں بی ایچ آر او کی قیادت بی بی گل اور طیبہ، سیاسی و سماجی کارکن حوران بلوچ،وومن ڈیموکریٹک فرنٹ کے کارکن ایڈوکیٹ جلیلہ حیدر او روائس فار مسنگ پرسن کے وائس چیئرمین ما ما قدیرکے سوا کسی کو اس احتجاجی کیمپ میں اظہار یکجہتی کیلئے نہ دیکھ سکی،میں ہرگز اس عمل سے کسی کو مجرم ٹھہرانا نہیں چاہتی کہ جنھوں نے مجھ سے اظہار یکجہتی نہیں کیا ہاں اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ آج آپ بلوچ اور پشتون اپنے تاریخی کردار سے منحرف ہو رہے ہیں جہاں بلوچ اور پشتون اپنی غیرت کیلئے سر جھکانے سے سر کٹانے کو ترجیح دیا کرتے تھے مگر آج وہ تاریخی اعمال نام کی حد تک زندہ ہیں۔ جب میں اپنے کمسن بیٹے میراث کے ساتھ کوئٹہ کی یخ بستہ ہواوں کا مقابلہ اس امید سے کررہی تھی کہ شاید میری اس احتجاج سے یہاں کے باشندوں کی انسانیت جاگ اٹھے اور وہ ظالموں کے خلاف آواز اٹھائیں،مگرمیں کیمپ کے سامنے گزرتے ہوئے ہر شخص کو دیکھتی رہ گئی جو اپنی دنیا میں ہی مگن دکھائی دیا۔کسی نے آکے یہ پوچھنے کی جرات تک نہیں کی کہ پردہ نشین آج سراپاء احتجاج کیوں؟ افسوس تاریخ کے باسی سر کٹانا دور خوف کے مارے میری طرف نظریں اُٹھاکے دیکھنا بھی گوارا نہ کرسکے۔

مزید پڑھیں: اگر شبیر بلوچ نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے – جلیلہ حیدر

ان کا مزید کہنا ہے کہ یقیناًایساہی ہوگا جہاں ظلم و بربریت اپنی انتہا کو ہوگی جہاں باپردہ خواتین کی سر عام تذلیل ہورہی ہو،جہاں قانون و آئین کے رکھوالے خود اس جبر کو ہوا دے رہے ہوں تو گلہ کس سے کیا جائے۔ہمیشہ میں نے سنا ہے کہ کسی کو اپنی تکالیف سے بھری فریاد اگر اعلی احکام یا اہل انسانیت تک پہنچانی ہو تو وہ شہر میں پریس کلب اور انسانی حقوق کے علمبردار اداروں کا سہارا لیں کیونکہ وہاں مظلوم کی آواز کو توانائی مل جاتی ہے اور وہاں سے انصاف ملنے کاعمل ممکن ہو سکتاہے۔ کاش ایسا ہوتا اور میری فریاد کی شنوائی ہوتی مگر سب خواب اور تصورات بن چکے ہیں۔ہاں آج میں اگر کسی کمپنی کے اشتہاری پروگرام کا حصہ ہوتی تو یقیناًلوگ جوق در جوق مجھے دیکھنے آتے اور میڈیا مالکان مجھ سے خود رابطہ کرتے۔ مگر نہیں کیونکہ آج میں ایک متاثرہ اور بد نصیب بہن کسی تجارتی کمپنی اور میڈیا مالکان کی تجارت کو دوام بخشنے کے لیے نہیں بلکہ اپنے پیارے بھائی لاپتہ شبیر جان کی بازیابی کیلئے احتجاج کر رہی ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: نیا پاکستان بننے کے بعد بلوچستان سے235 افراد لاپتہ ہوچکے ہیں-اختر مینگل

سیما بلوچ نے سوال کیا کہ کیا میں یہ حق نہیں رکھتی کہ پریس کلب سے منسلک صحافی حضرات مجھ سے میری فریاد سننے آئیں اور میری آواز بنیں،اس مقدس پیشے سے وابسطہ ذمہ داروں کی خاموشی کیوں ہے ؟ آج میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا آپ کو بھائی اور بہن کے عظیم رشتوں کا احساس نہیں؟ کیا آپ ان عظیم رشتوں کی محبت سے واقفیت نہیں رکھتے؟ لگتا کچھ ایسا ہی ہے کہ آج کے انسان نے ذاتی زندگی یا انفرادی سوچ کی وجہ سے فطری رشتوں کو دھتکار ا ہے۔ اگر آج کا انسان ان رشتوں کے احساس سے واقف ہوتا تو یقیناًمجھ سے اظہار یکجہتی نہ سہی ہمدردی کا اظہار کرنے ضرور میرے سر پہ دست شفقت رکھنے کوئی بشر آ پہنچتا۔

ان کا مزید کہنا ہے اس گُھٹن اور حبسِ بے جا معاشرے میں قید انسان فقط ذاتی خواہشات کا اسیر بن چکاہے۔کاش کہ خواہشات کی بھینٹ چڑھنے والے عوام اورخود کو دانشوری کے القابات سے نوازنے والے پڑھے لکھے اندھوں کو اس بات کا احساس ہوتاکہ بے شمار متاثرہ بلوچ بہنیں اور مائیں آپ سب تک اپنی تکالیف کو پہنچانے کا راستہ اپنانے کی جدوجہد کررہی ہیں مگر دوسری طرف آپ سب کی خاموشی اور بے حسی تاریخ کے اوراق میں درج ہوتے چلے آرہے ہیں۔ہاں میں چادر و چار دیواری کی پامالی پر واویلہ کرنے والی پارٹیاں دیکھ چکی ہوں مگر آج وہ خود اس جرم میں شریک ہیں۔ آج انتہائی تکلیف کہ ساتھ کہہ رہی ہوں کہ جہاں باپردہ بلوچ خواتین اپنوں کی خاطر میری طرح نقاب ہٹاکر یہ یقین دلاتے چلے آرہے ہیں کہ میں ہی وہ بدنصیب ہوں کہ جس کے پیارے اس ریاست کے رکھوالوں نے اُٹھائے ہیں۔مگر اب تک اس ظلم سے چھٹکارہ دلانے کے لیے کوئی راہی، کوئی خضر ہمیں ملا نہیں۔

سیما بلوچ نے مزید کہا کہ ان سب کے باوجود بھی میں ایک بار پھر حکام بالا اور انسانی حقوق کی تنظیمیوں سمیت انسانیت کو سب سے بالا تصور کرنے والے حضرات سے اپیل کرتی ہوں کہ میرے پیارئے بھائی کی باحفاظت بازیابی میں میرا ساتھ دیں جبکہ میں کل بروز بدھ کوہٹہ پریس کلب کے سامنے اپنے بھائی کی باحفاظت بازیابی کیلئے شام3بجے ایک احتجاجی مظاہرہ کررہی ہوں میڈیا سے منسلک حضرات سمیت تمام مکتبہ کے فکر لوگوں سے شرکت کی اپیل کرتی ہوں۔

واضح رہے شبیر بلوچ بی ایس او آزاد کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری تھے جب انہیں 4 اکتوبر 2016 کو بلوچستان کے علاقے کیچ سے لاپتہ کردیا گیا تھا۔ بی ایس او آزاد اور ان کے لواحقین کا موقف ہے کہ شبیر بلوچ کو پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔

یاد رہے بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 3385 دن مکمل ہوگئے۔