انسانی حقوق اور بلوچستان – کمال بلوچ

202

انسانی حقوق اور بلوچستان

کمال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں اس شئے سے محروم ہے۔ اس کی وجہ بلوچستان کے عوام کی نالائقی اور کم علمی نہیں بلکہ یہ پاکستان کی داد ہیں۔ پاکستان نے نہ صرف قبضہ کرکے بلوچستان کے وسائل لوٹے بلکہ ایک کالونی کے ساتھ روا رکھنے والی تمام سلوک اور عقائد کو بھرپور طریقے سے پورا کیا۔ دنیا کے اکثر ملک جو ترقی کی راہ پر گامزن ہوکر آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہیں کئی قابل داد کارنامے سرانجام دے جا چکے ہیں، جاپان کے ہوٹلوں میں انسانوں کی جگہ روبوٹ کام کر رہے ہیں۔ مگر ہم جیسے پسے ہو ئے قوم کے فر زند غلامی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ہم جد ید ٹیکنالو جی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ ہم غلام ہیں اور قابض نے اب تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے۔

بلوچستان میں ہر طرح سے انسانی حقوق پامالی ہورہی ہیں۔ پاکستان نے بلوچستان پر قبضہ کرکے یہاں ایک Undeclared war شروع کی ہے۔ پاکستانی فو ج نے بلوچ نسل کشی میں کو ئی کسر باقی نہیں چھوڑا ہے۔ اس وقت بلوچستان میں معاشرے کے باشعور طبقے کو اغواء کر کے اذیت گاہو ں میں رکھا گیا ہے۔ استاد ،ڈاکٹر ،وکیل ،صحافی ،اسٹو ڈنٹ ،انسانی حقو ق کے کارکنوں سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کو پاکستانی فوج نے اُٹھا کر لاپتہ کیاہے۔ حتٰی کہ بلو چستان کے مختلف علا قوں سے اجتماعی قبریں برآمد ہوچکی ہیں۔ آج تک مسخ شدہ لاشوں کے برآمد ہو نے کا سلسلہ رواں دواں ہے۔

دنیا میں انسانوں کیلئے کچھ اصول بنائے گئے ہیں۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے ادارے وجود میں لائے گئے ہیں۔ ان میں سب سے اعلیٰ اقوام متحدہ ہے۔ ان اداروں کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ ان اداروں کا کردار کیا ہے۔ کیا وہ برائے نام ادارے ہیں یا عملی طور پر اپنی قانون کے مطابق کردار ادا کر رہے ہیں؟ ہم ان اداروں سے کوئی مثبت رہنمائی اورمظالم روکنے میں کوئی اقدام نہیں دیکھ رہے۔ یہ خود کہتے ہیں کہ یمن میں انسانی بحران ہے اور تین کروڑ افراد غذائی قلت کا شکار ہیں۔ انہی کے مطابق ہسپتال اور اسکولوں پر بمباری کی جا چکی ہے، جس میں کئی بچے شہید ہوچکے ہیں، مگر یہاں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کوئی انگلی اٹھانے کی زحمت بھی نہیں کر رہا۔ کیا یہ ادارے ان کے ہا تھوں یرغمال ہو چکے ہیں؟ جی ہاں! ان سے توقع نہیں رکھنا چاہئے۔ یہاں تک کہ سعودی عرب کے خلاف جمال خوشقجی کی قتل پر کوئی قدم نہیں اُٹھایا جا رہا ہے حالانکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سعودی حکومت اس میں براہ راست ملوث ہے۔ اٹھارہ افراد پرائیویٹ جہاز میں آکر ایک قتل کرکے واپس چلے جاتے ہیں اور کئی دن گزرنے کے باوجودہمیں مثبت قدم اُٹھایا جانا دکھائی نہیں دے رہا۔

دنیا میں جب جنگیں لڑی جاتی ہیں تو وہاں انسان اپنی حفاظت، امن اور ترقی کیلئے بھی منصوبے بناتے ہیں۔ جنگ بھی انہی بنیادوں پر ہوتے ہیں۔ دو بڑی جنگوں جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوئم میں کروڑوں انسانوں سے آباد شہروں اور ملکوں کو قبرستانوں اور کھنڈرات میں تبدیل کردیا گیا اوران ہولناکیوں نے انسانی ذہن اور سوچ پر گہرے اثرات مرتب کئے، جن کی اثرات آج بھی ملتی ہیں۔ انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ ہولناک جنگ کے بعد بالآخر انسان یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور ہوا کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوا کرتی، بلکہ جنگ مزید مسائل کو جنم دیتی ہے، لیکن ناانصافی،عدل اور انصاف کی خاطر لوگ مجبور ہو کر جنگ شروع کرجاتے ہیں۔ جنگ عظیم اول اور دوئم دونوں ہی اس کی بدترین مثالیں ہیں اوربالاخر انسان کو امن کے جھنڈے تلے ہی پناہ لینی پڑی اور ایک پرامن اور مستحکم اور خوشحال دنیا کے لئے مشترکہ جدوجہد کے لئے ایک عالمی ادارے کی ضرورت کو محسوس کیا گیا اور اسی کے نتیجہ میں اقوام متحدہ کا ادارہ معرض وجود میں آیا۔

اس ادارہ کے قیام کا بنیادی مقاصد میں ایک انسانی حقوق کا تحفظ اور اس کا فروغ بھی ہے۔ اب اس کی بہت لمبی تاریخ ہے۔ اب یہ ستر سال کی ہو چکی ہے۔ جو ملک اقوام متحدہ کے حصے ہیں کیا واقعی وہ اقوام متحدہ کے اصولو ں پر پو ری طر ح اتر رہے ہیں؟ اب ہم پاکستان کا ذکر کریں جہاں بلو چوں کے ساتھ ساتھ سندھی اور پشتون بھی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ پاکستان اقوام متحدہ اور اس کے انسانی حقوق کونسل کارکن بھی ہے اور وہ جدید دنیا میں زبردستی قبضہ اور نسل کشی جیسے سنگین جرائم کا مرتکب بھی ہے۔ پاکستان 27مارچ 1948کو بلوچستان کی آزادی کو پاؤں تلے روند کر بلو چستان پر قبضہ کرتا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کیا ہیں؟ اقوام متحدہ دنیا میں ہر انسان کو اس کے حقوق دینے کی بات کرتاہے۔۔۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسان کے بنیادی حقوق کے حوالے سے تقریر کی آزادی، تحریر کی آزادی، انجمن سازی کی آزادی وغیرہ کا نام لیا جاتا ہے اور ان آزادیوں کی خلاف ورزی پر انسانی حقوق کی تنظیمیں واویلا کرکے انسان کے اصل بنیادی حقوق کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں، جب کہ انسان کے اصل بنیادی حقوق میں سماجی مساوات، معاشی انصاف، بنیادی اہمیت کے حامل انسانی حقوق ہیں۔ لیکن سب کچھ جانتے ہو ئے بلوچ سمیت دیگر محکوم قوم کی تمام حقوق سلب کئے گئے ہیں۔

پاکستان میں سیاسی، سماجی، طلباء اور انسانی حقوق کارکن عقوبت خانوں میں بند ہیں اور بہت سے لوگوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی علمبردار بی ایچ آر او کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹیر ی نواز عطابلوچ کو فوج نے کر اچی سے اغواء کیا تھا جو تاحال لاپتہ ہیں۔ بی ایچ آر او بلوچستان میں بلوچوں کی واحد انسانی حقوق کی تنظیم ہے جو بلوچستان میں بلارنگ و نسل انسان کی بنیادی حق کے لئے آواز بلند کرنے میں مصروف ہے۔ دوسری جانب خود اس کے کارکن اغوا ہو چکے ہیں۔ اس سے پہلے صحافی حاجی رزاق ،جاوید نصیر، رزاق گل اور انسانی حقوق کے کارکن صدیق عید و بھی ان کے عقوبت خانو ں میں اذیت سہنے کے بعد اپنی زندگی سے ہاتھ دو بیٹھے ہیں۔

بی ایس او اور بی این ایم جیسے پُرامن اور جمہوری تنظیم کے کارکن غائب ہیں۔ انکی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہورہے ہیں۔ کیا ان کو انسان تصور نہیں کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ اقوام متحدہ کہتا ہے انسانوں کے زندہ رہنے اور زندگی گزرنے کے کچھ اصول ہو تے ہیں۔ کیا یہ سب پاکستان میں دکھائی دیتے ہیں؟ سب سے پہلے یہ دیکھیں اور سمجھیں۔۔۔۔۔ زندہ رہنے کے حق کا مطلب ایک آسودہ زندگی بسر کرنا ہے۔ زندہ رہنے کے حق کا مطلب ایک معیاری رہائش کے ساتھ زندہ رہنا ہے۔ زندہ رہنے کا مطلب ضرورت کے مطابق علاج معالجے کی سہولتوں کے ساتھ زندہ رہنا ہے۔ زندہ رہنے کا مطلب اعلیٰ تعلیم کے حصول کی سہولتوں کے ساتھ زندہ رہنا ہے۔ زندہ رہنے کا مطلب ٹرانسپورٹ کی سہولتوں کے ساتھ رہنا ہے۔ زندہ رہنے کے حق کا مطلب تفریح کی سہولتوں کے ساتھ زندہ رہنا ہے۔ زندہ رہنے کا مطلب ذہنی پریشانیوں سے نجات کے ساتھ زندہ رہنا ہے۔ زندہ رہنے کا مطلب صاف پانی کے ساتھ پیاس بجھا کر زندہ رہنا ہے۔ زندہ رہنے کا مطلب اپنی تعلیم اپنی صلاحیتوں کے مطابق روزگار کے حصول کے ساتھ زندہ رہنا ہے۔ زندہ رہنے کا مطلب عزت اور وقار کے ساتھ زندہ رہنا ہے۔ زندہ رہنے کا مطلب خوف و دہشت سے پاک ماحول میں آزادی کے ساتھ زندہ رہنا ہے۔ زندہ رہنے کی یہ سہو لتیں دور کی باتیں ہیں مگر یہ دیکھیں کہ بلوچستان میں ہو کیا رہاہے۔ لوگ سرعام پاکستانی فو ج کے ہاتھو ں اغوا ہو رہے ہیں۔ چاہے وہ استاد ہوں، ڈاکٹر ہوں اغوا ہو رہے ہیں۔ وکیل بھی اسی چکی پس رہے ہیں۔ طلبا و طالبا ت بھی اغوا ہو رہے ہیں۔ خو اتین اور بچے اغو ا ہو رہے ہیں۔ سیاست کی اجازت نہیں۔ اظہا ر آزادی برائے نام باقی رہ چکا ہے۔ صحافی اغو ا کئے جارہے ہیں۔ اغو اہونے کے بعد انکی لاشیں برآمد ہو جاتی ہیں۔ اجتماعی قبریں برآمد ہو چکی ہیں۔۔۔۔ کیا بلوچ اس طرح زندہ رہ سکتے ہیں۔۔۔ کیا انسانی حقو ق کے ادارے اور اقوام متحدہ ان باتوں کے بارے غور کر رہے ہیں۔۔۔۔ کیا اقوام متحدہ کے چارٹر کے دستخط کر نے والے ممالک بلو چوں کے بنیادی حق آزادی تسلیم کرکے خطے میں انسانی بحران کوبچانے میں کر دار ادا کریں گے۔

اب 8 201میں انسانی حقوق کے عالمی منشور یعنی یونیورسل ڈیکلریشنUDHR کے منظور کئے جانے کے ستر سال پورے ہو رہے ہیں۔ ٹھیک ستر سال پہلے دس دسمبر1948 کو اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کے یونیورسل ڈیکلریشن کوایک قرار داد نمبر217A کے تحت منظور کیا تھا۔ اسی لئے ہر سال دس دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن اسی کی یاد میں منایا جاتا ہے اور دنیا بھر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کی بھرپور مذمت کی جاتی ہے اور انسانی حقوق کے تحفظ و اس کی اہمیت پر سیمینارز منعقد کئے جاتے ہیں۔ اس ڈیکلریشن میں بنیادی انسانی حقوق اور آزادیوں کی واضح نشاندہی کی گئی ہے اور یہ تیس آرٹیکلز پر مشتمل ہے۔ یہ اس وقت دنیا کی سب سے غیر معمولی اور اہم ترین دستاویزات میں سے ہے۔ تادم تحریر انسانی حقوق کے عالمی منشور کا 508 زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ 1999 سب سے زیادہ زبانوں میں ترجمے کا ورلڈ ریکارڈ قائم کیا تھا جب کہ2009 میں دنیا کی سب سے زیادہ زبانوں میں ترجمے کے ساتھ پڑھی جانے والی دستاویزات کے طور پر اس کا اندراج گنیز بک آف ریکارڈز میں کیا گیا اور اس کوعالمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ انسانی حقوق کے عالمی منشور کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ انگریزی، ہسپانوی اور پرتگالی زبانوں میں اشاروں کی زبان میں بھی یوٹیوب پر دستیاب ہے۔او ایچ سی ایچ آرOHCHRکا دفتر سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں موجود ہے جہاں دنیا بھر کے ممالک میں ہونے والی انسانی حقوق کی پاسداری کے لئے الفاظوں، اور تقریروں کے ذریعے جنگ لڑی جاتی ہے۔ کیا بلوچستان اس دنیا کے حصے میں نہیں آتا ہے؟ اقوام متحدہ کی وجود کو ستر سال پو ری ہو چکی ہے اور ساتھ ہی بلوچستان پر قبضے کو بھی ستر سال پو ری ہو چکے ہیں۔ وہ غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن اقوام متحدہ بلوچستان کے بارے میں اپنا فرض اور کردار ادا نہیں کر رہا۔

کیا پاکستان بلوچستان میں اس منشور کی احترام کررہا ہے؟ میرے خیال میں نہیں، کیو نکہ ہزاروں کے حساب سے بلوچ اغواء ہوچکے ہیں جو تاحال غائب ہیں۔ سینکڑوں کے حساب سے بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں بر آمد ہو چکی ہیں۔ فو جی آپریشنوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے ہررکن ملک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس عالمی منشورکا احترام کرے اور اس کی روشنی میں اپنے ملک کے شہریوں کو حقوق کی فراہمی یقینی بنائے۔ ان حقوق میں جینے کا حق، امتیاز سے پاک مساوات اور برابری کا حق، اظہار رائے کی آزادی، معاشی، سماجی اورثقافتی حقوق شامل ہیں۔ اس کو ماننا اور اس پر عمل کرنا ہر اس ملک کے لئے لازمی ہے جو اقوام متحدہ کا ممبر بن چکا ہو۔

1966میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اتفاق رائے سے انسانی حقوق کے عالمی بل کے موخرالذکردو معاہدوں کو منظور کیا جس کے بعد سے یہ بل انسانی حقوق کی ایک مکمل دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ جنرل اسمبلی نے جب اس تاریخی بل کی منظوری دی تو ساتھ ہی اعلان کیا اور اس وقت کے تمام ممبر ممالک کو تاکید کی گئی کہ وہ بھی اپنے اپنے ملک میں اس کا اعلان کریں اور اس کی نشرو اشاعت میں حصہ لیں مثلاً یہ کہ اسے نمایاں مقامات پر آویزاں کیا جائے اور خاص طور پر اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں اسے پڑھ کر سنایا جائے اور اس کی تفصیلات واضح کی جائیں اور اس ضمن میں کسی ملک یا علاقے کی سیاسی حیثیت کے لحاظ سے کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔

2015سے لے کر2030تک اقوام متحدہ نے پائیدار ترقی کے سترہ17 اہداف مقرر کئے ہوئے ہیں، جن میں بھوک کا خاتمہ، انسداد غربت، معیاری تعلیم،معیاری صحت کی سہولیات، صنفی مساوات، صنعتی ترقی، صاف پانی اور صفائی، سستی اور آلودگی سے پاک بجلی، معقول روزگار، امن اور تعاون جیسے اہداف شامل ہیں۔ بلوچ قوم انتظار میں ہے کہ کب اُسے ’’ انسان بغیر حقوق‘‘کے کالم سے نکال کر ’’انسان بمعہ حقوق‘‘والے کالم میں ڈالا شامل کیا جائے گا۔