ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی بیان میں افغانستان کے صوبہ اورزگان کے مخصوص ہزارہ آبادی والے علاقوں پر طالبان کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ رہائشی علاقوں کے نہتے بزرگ،خواتین ،معصوم بچوں کت قتل عام ،بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور جنگی قوانین کے خلاف ورزی کے مرتکب طالبان نے اورزگان میں1890 کے دہائی کی یاد تازہ کردی۔
بیان میں کہا گیا کہ اس وقت بھی افغان آمرحکمران نے وسطی افغانستان کے ہزارہ آبادی والے علاقوں اور اورزگان پر حملہ کرکے 60فیصد سے زائد ہزارہ قوم کا قتل عام کیا تھا آج بھی طالبان نسلی و لسانی نفرتوں کی بنیاد پر ہزارہ قوم کے قتل عام کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے پر امن ہزارہ قوم کے خلاف افغانستان کے قومی شاہراہوں،مساجد اور تکیہ خانوں میں سرگرم عمل ہیں ۔
بیان میں کہا گیا کہ اورزگان پر حملہ ایک ہفتہ قبل کیا گیا تھا جبکہ مقامی آبادی کے املاک جلاکرلوٹ مار بھی کئے گئے اور سینکڑوں بیگناہ اور نہتے ہزارہ قوم کا قتل عام کیا گیا ہے اس دوران وہاں کے ہزارہ قوم کو تحفظ فراہم کرنے کے سلسلے میں افغان حکومت نے مکمل و مسلسل خاموشی اختیار کر کے اپنی طالبان دوستی وطالبان سرپرستی کی روش ثابت کردی۔
بیان میں کہا گیا کہ حکومت کے تعاون و حمایت کے بغیر مقامی آبادی اپنی مدد آپ کے تحت طالبان کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں اس وقت مقامی آبادی کو افغان حکومت اور کسی اور فورس کی کسی طرح کی حمایت حاصل نہیں ،یوں لگتا ہیں کہ عالمی ادارے اور افغان حکومت اورزگان میں کسی بڑے انسانی المیے کاانتظار کر رہی ہیں ،اورزگان کے واقعہ میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی بھی افسوسناک ہیں ہزاروں کی تعداد میں مقامی آبادی ہجرت کر کے دیگر علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوتے ہیں ،جوکہ بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں شمار کئے جا سکتے ہیں ۔
بیان میں افغان حکومت سے مطالبہ کیا کہ کسی بڑے انسانی المیہ کے رونما ہونے سے قبل اورزگان میں طالبان کے خلاف کاروائی کر کے مقامی آبادی کوتحفظ فراہم کرنے کے سلسلے میں اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریاں پوری کریں بصورت دیگریہ تصورکیا جائیگا کہ افغان حکومت اور طالبان میں کوئی فرق نہیں۔
یاد رہے کہ افغانستان کے صوبے اورزگان میں چند روز قبل طالبان نے حملہ کرکے 42 سے زائد افراد کو بے دردی سے قتل کردیا تھا جن کا تعلق ہزارہ آبادی سے تھا ۔