افغانستان کی حکومت نے رواں سال ریکارڈ تعداد میں ملک کے اضلاع سے اپنا کنٹرول کھو دیا ہے تاہم چند علاقوں سے طالبان کا قبضہ بھی ختم ہوا ہے۔
امریکی کانگریس کو بھیجی گئی ایک سرکاری رپورٹ یکم جولائی سے 30 ستمبر 2018 کے دورانیے پر مشتمل ہے جس میں ایک خطرناک رجحان کی نشان دہی کی گئی، جو بتدریج حکومتی کنٹرول سے باہر علاقوں میں اضافے سے افغانستان اور اس کے ہمسایہ خصوصاً پاکستان کے لیے خطرناک اثرات کا باعث بن سکتا ہے۔
حکومت کے کنٹرول سے باہر یہ علاقے وہ ہیں، جہاں سے ٹی ٹی پی اور دہشت گرد تنظیم داعش، پاکستان اور افغانستان کے اہم شہروں میں حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
افغان مصالحت کے خصوصی انسپکٹر جنرل (ایس آئی جی اے آر) کی جانب سے امریکی کانگریس کے لیے ترتیب دی گئی سہ ماہی رپورٹ میں کہا گیا کہ افغانستان کے سیکیورٹی اہلکاروں کی محدود تعداد ملک کے اندر کئی علاقوں پر اپنا قبضہ بحال کرنے کے قابل نہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس دوران افغان فورسز کے عہدیداروں کی بھی ریکارڈ اموات ہوئی ہیں۔
پیٹاگون کی جانب سے فراہم کی گئیں دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ‘غیر مرتب ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان نیشنل ڈیفنس سیکیورٹی فورسز (اے این ڈی ایس ایف) نے اس سہ ماہی میں طالبان پر بہت کم دباؤ ڈالا یا کوئی بہتری نہیں آئی’۔
دستاویزات کے مطابق ‘اے این ڈی ایس ایف اضلاع، آبادی اور سرحدوں میں اپنے اثر یا کنٹرول کو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے جبکہ انتہا پسندوں کے زیر اثر اضلاع، آبادی اور سرحدوں میں بھی کمی آئی ہے اور لڑائی میں تیزی آئی ہے’۔
رپورٹ میں ‘لڑائی سے محفوظ’ علاقوں کو نہ تو افغان حکومت اور نہ ہی انتہا پسندوں کے زیر اثر یا قبضے میں دکھایا گیا۔
کانگریس کو پیش کی گئی رپورٹ میں نشان دہی کی گئی کہ ایس آئی جی اے آر کی جانب سے نومبر 2015 میں اضلاع کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے افغان حکومت کا ان اضلاع پر کنٹرول اور اثر 55 اعشاریہ 5 فیصد کی کم سطح تک پہنچ گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ افغان حکومت کے زیر اثر یا کنٹرول والے اضلاع میں اکتوبر 2015 سے 65 فیصد آبادی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
افغانستان کی دو تہائی آبادی اب بھی کابل کے زیر کنٹرول ہے، افغان حکومت کا ہدف اس کے کنٹرول یا اثر کو 2019 کے اختتام تک ملک کی 33 لاکھ آبادی کے 80 فیصد حصے تک بڑھانا ہے۔
رپورٹ کے مطابق انتہا پسندوں کے زیر اثر 35 لاکھ افراد ہیں جس میں گزشتہ سہ ماہی میں معمولی کمی آئی ہے جبکہ لڑائی سے متاثرہ علاقوں میں موجود آبادی کی ایک بڑی تعداد میں 81 لاکھ تک اضافہ ہوا ہے۔
افغانستان کے حوالے سے اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ نیٹو کے تربیتی مشن کی واپسی کے ایک سال بعد 2015 سے افغان انتہا پسندوں نے اپنے کنٹرول کو وسعت دی ہے۔
دوسری جانب غیرسرکاری دستاویزت میں دعویٰ کیا گیا کہ حکومت کو پینٹاگون کی معلومات سے زیادہ ایک بڑے حصے سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔
غیر جانب دار گروپ فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز کی جانب سے شائع ہونے والے دی لانگ جرنل کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے آدھے سے زیادہ اضلاع کی آبادی حکومتی کنٹرول سے باہر رہتی ہے۔