افغانستان کی صورتحال تاحال غیر یقینی ہے – امریکی جائزہ رپورٹ

176

امریکی حکومت کی ایک نئی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی صورتِ حال تاحال غیر یقینی ہے اور افغان اور امریکی حکومت تنازع کے حل کے لیے کوئی واضح پیش رفت کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

پیر کو جاری کی جانے والی رپورٹ جولائی سے ستمبر 2018ء کے تین ماہ کے دوران افغانستان کی فوجی، سیاسی اور سماجی صورتِ حال کے جائزے پر مشتمل ہے اور افغانستان میں جاری جنگ کے 17 سال مکمل ہونے کے موقع پر جاری کی گئی ہے۔

یاد رہے کہ امریکہ نے 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے بعد اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر حملہ کیا تھا اور اب یہ جنگ امریکی تاریخ کی سب سے طویل جنگ بن چکی ہے جس کا تاحال کوئی واضح اختتام نظر نہیں آرہا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان طالبان کو امن معاہدے پر آمادہ کرنے کی حالیہ کوششوں میں کوئی واضح پیش رفت نہیں ہوسکی ہے اور تمام عسکری اور سیاسی اشاریے یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ افغانستان کی صورتِ حال بہتر نہیں ہورہی۔

رپورٹ امریکی محکمۂ دفاع ‘پینٹاگون، امریکی محکمۂ خارجہ اور امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس اے آئی ڈی) کے انسپکٹرز جنرل کے مشترکہ جائزے پر مبنی ہے۔

رپورٹ ٹرمپ حکومت کے اس دعوے کے برعکس ہے کہ افغانستان سے متعلق امریکی حکمتِ عملی میں تبدیلی کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن اور مفاہمت کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔

ٹرمپ حکومت نے اگست 2017ء میں افغانستان سے متعلق امریکہ کی نئی حکمتِ عملی کا اعلان کیا تھا اور رواں سال جولائی میں کابل کے دورے کے دوران امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ نئی حکمتِ عملی کارگر ثابت ہو رہی ہے۔

لیکن رپورٹ کے مطابق سیکریٹری پومپیو کے دورۂ افغانستان کے بعد کے تین ماہ کے دوران بھی افغان طالبان نے اپنی سخت جانی کا ثبوت دیا اور امریکہ کی جانب سے افغان فوج اور پولیس کو تربیت اور معاونت کی فراہمی کے باوجود سرگرمی سے اپنے حملے جاری رکھے۔

رپورٹ کے مطابق جولائی تا ستمبر کی سہ ماہی کے دوران افغانستان میں سکیورٹی کی صورتِ حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جب کہ تمام تر کوششوں اور سرگرمیوں کے باوجود مفاہمت کے حصول کی کوششوں میں بھی کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ افغان سکیورٹی فورسزکے جانی نقصان میں اضافہ ہو رہا ہے اور بنیادی انسانی ضروریات بڑھ رہی ہیں۔

واضح رہے کہ امریکی فوج افغان سکیورٹی اہلکاروں کو پہنچنے والے جانی نقصان کی تفصیلات جاری نہیں کرتی کیوں کہ اس کے بقول افغان حکومت نے ایسا کرنے سے منع کر رکھا ہے۔

لیکن گزشتہ ہفتے ہی اپنے دورۂ واشنگٹن کے دوران افغان صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ گزشتہ چار سال کے دوران افغان فوج اور پولیس کے 28529 اہلکار فرائض کی ادائیگی کے دوران ہلاک ہوئے جب کہ اس کے مقابلے میں اس عرصے کے دوران مرنے والے امریکیوں کی تعداد صرف 58 رہی۔

رپورٹ امریکی مسلح افواج کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفرڈ کے گزشتہ ہفتے کے اس بیان کی بھی تائید کرتی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ طالبان کو امن مذاکرات پر آمادہ کرنے کی کوششیں ناکافی ہیں۔

ایک سکیورٹی کانفرنس سے خطاب میں امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ طالبان پر فوجی، سیاسی اور سماجی دباؤ بڑھانے کے معاملے پر امریکہ اب بھی اس مقام سے بہت دور ہے جہاں کھڑا ہو کر وہ کہہ سکے کہ وہ صحیح راستے پر ہے۔

جنرل ڈنفرڈ کا کہنا تھا کہ امریکی حکام نے گزشتہ سال کہا تھا کہ افغانستان کی صورتِ حال جوں کی توں ہے اور اس سال بھی صورتِ حال میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔