اسیر کارکن حاصل حسرت بلوچ ۔ کریم جان بلوچ

449

اسیر کارکن حاصل حسرت بلوچ

تحریر۔ کریم جان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

حاصل حسرت جھاؤ گزی میں پیدا ہوئے، پرائمری تعلیم ہائی سکول مشکے سے حاصل کی اور مڈل کی تعلیم ہائی سکول کورک سے پاس کرکے ایف اے میں داخلے کےلیئے تربت چلے گئے۔ ایف اے اور بی اے عطا شاد ڈگری کالج تربت سے پاس کیا، وہ اس وقت بہت چھوٹے تھے کہ ان کے والد محترم وفات پا گئے تھے، ایک ہی ماں کا سہارا تھا، اس کی ماں نے ہاتھوں سے کپڑے سلائی کرکے اپنے بیٹے کو پڑھایا، اپنے منہ کا نوالہ چھین کر بیٹے کی پڑھائی کےلیئے خرچ کیا، ماں نے اپنی تنگ دستی، مجبوری برداشت کرکےاپنی کمائی بیٹے کی پڑھائی کے لیئے خرچ کرتا رہا کہ میرابیٹا، میرا سہارا بنے گا۔ بڑی مشکل سے بیٹے کوبی اے تک پڑھایا، در بہ در کی ٹھوکریں برداشت کرتا رہا، وہ ایک سوشل انسان تھے، بے روز گاری کی وجہ سے انھوں نے بی اے پاس کرنے کے بعد آخر میں ایک غیر سرکاری تنظیم این آرایس پی میں بھرتی ہوئے، وہ اس وقت بلوچ نیشنل موومنٹ جوائن کر چکا تھا۔

آپ شہید واجہ غلام بلوچ کے فکر و نظریہ سے بہت مثاتر تھے، وہ ایک شاعر اور صحافی تھے، 19 اپریل 2014 کی رات تھی فوج نے گاؤں گزی کو 50 گاڑیوں اور 2 ہیلی کاپڑوں کے ذریعے رات کے تقریباً 4 بجے چھاپہ مار کر بلوچی شاعر اور صحافی حاصل حسرت سمیت 45 افراد کو اغوا کرکے اپنے ساتھ لے گئے، 5 افراد 70 سالہ ماسٹر نور محمد، غلام جان، نواز علی، طالب حسین اور تاج محمد کو شہید کیا گیا۔ حاصل حسرت اور دولت آج تک لاپتہ ہیں، باقی افراد کو 40 دنوں کے بعد چھوڑ دیا گیا۔

ایک سال پہلے ایک قیدی جو ٹارچر سیلوں میں حاصل کے ساتھ اکھٹے بند تھا اس کا کہنا تھا کہ میں نے حاصل کو دیکھا تھا، اس نے اپنا قصہ یوں بیان کیا تھا کہ میرا نام حاصل حسرت ہے میں جھاؤ گزی کا رہنے والا ہوں، میں اپنا نام بتانے سے گھبرا رہا تھا، اپنا نام نہیں بتایا ہمیں ایک دوسرے سے بات کرنے نہیں دیتے تھے، ہم ایک ہی کمرے میں بند تھے۔ ہماری آنکھوں پر سیاہ پٹیاں باندھی گئی تھی اور ہاتھوں میں زنجیریں تھیں۔ حاصل حسرت کو فرش پر لٹایا گیا تھا، مغرب کی آزان ہو چکی تھی، ہم نے محسوس کیا یہاں کوئی نہیں ہے، قریب آکر ایک دوسرے کو تسلی دینے لگے، ہمیں چھوڑ دیا جائے گا حاصل کہنے لگا میں اپنے گھر میں سویا ہوا تھا، رات 4 بجے سے پہلے فوج نے پورے گاؤں کو گھیرے میں لیا ہوا تھا، مجھے میری ماں نے نیند سے اٹھایا، اس وقت سورج طلوع ہونے والا تھا، ہیلی کاپٹروں کی آوازیں آرہی تھیں۔ میرا دامادگھر کے اندرموجود تھا، میں گھر کے سامنے کھڑا تھا میرے آنکھوں کے سامنےمیرے بھائی پر ہیلی کاپٹر شیلنگ کر رہے تھے، چھوٹے چھوٹے بچے گاؤں سے بھاگ رہے تھے، عورتوں اور بچوں کی چیخ وپکار کی آوازیں آرہیں تھیں۔ میں تھوڑا گھر سے دور جاکر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا، ہیلی کاپٹر شدید فائرنگ کر رہے تھے، پہاڑوں پر بھیٹھے ہوئے فوجی فائرنگ کر رہے تھے، ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ سے کئی لوگ زخمی ہو چکے تھے، کئی لوگوں کو گرفتار کرکے آنکھوں پر پٹیاں اور ہاتھوں کو رسی سے بندھے دیکھا تھا۔ دو آدمی جو سادہ لباس میں گاڑیوں میں سوار تھے، میرے گھر کو جلایا گیا، میری بھیڑ بکریوں کو گھر کے اندر لے جا کرجلایا گیا۔ میری بوڑھی ماں کے ہاتھوں میں قرآن شریف تھا، فوجیوں کو قرآن کا واسطہ دے رہی تھی، وہ کچھ سننے کو تیار نہیں تھے قرآن شریف کو ہاتھ سے چھین کرپھینک دیا گیا، میری بوڑھی ماں اور بہن کو دھمکیاں دے کر تشدد کیا جا رہا تھا، معلوم نہیں کتنے لوگوں کو زخمی اور شہید کیا گیا۔ ایک چھوٹی بچی خون سے لت پت زمین پر گری ہوئی تھی اور ایک بارہ سالہ لڑکے کو کمر میں گولی لگی ہوئی تھی، گولی کی وجہ سے گلہ سوکھ گیا تھا، پانی پانی کر رہاتھا۔ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ جاری تھا، زمینی فوج گھروں اور جنگلوں سے لوگوں کو گرفتار کر رہے تھے، کچھ گھروں سے قیمتی سامان کو اٹھا کر گاڑیوں میں لاد رہے تھے۔

مجھے گرفتار کرکے آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر چھ فوجیوں نے مارمار کر بے ہوشی کی حالت میں ہاتھ پاؤں پکڑ کر گاڑی میں پھینک دیا۔ گاؤں کے تمام بوڑھوں اور بچوں کو گرفتار کرکے گاڑیوں میں پھینکا گیا اس میں ایک نوجوان اسداللہ کو ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ سے پاؤں میں گولی لگی ہوئی تھی، گرفتار کرکے سب کو چھاؤنی میں لے گئے۔ تین دن تک ہمیں اکٹھا رکھا گیا، پھر مجھے الگ کمرے میں لے گئے۔

مجھ پر شدید ٹارچر کیا گیا، میری آنکھوں پر سرچ لائیٹ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پاؤں میں بیڑیاں لگا کر لٹکایا گیا، میرے جسم کو بلیڈ سے چیر چیر کرکے زخموں پر مرچ اور نمک ڈالا گیا، میں بے ہوش ہو چکا تھا۔ پتہ نہیں کب ہوش میں آیا، پہلی فجر تھی یا دوسری فجر میں ہوش میں آیا، فجر کی آزان ہو رہی تھی کچھ دنوں تک یہی سلسلہ جاری رہا۔ ایک رات مجھے دوسرے کمرے میں لے گیا، میری آنکھوں کی پٹیاں اتاری گئیں، میرے سامنے کرسی پر ایک سفید پوش بیٹھا ہوا تھا، تفتیش شروع ہوئی، سچ سچ بتاؤ میں تمیں اچھی طرح جانتا ہوں، سچ بتاؤ گے تمیں چھوڑ دیا جائے گا ورنہ کال کھوٹریوں میں سڑتے رہو گے، بتاؤ ڈاکٹر اللہ نذر کہاں ہے؟ تم اللہ نذر سے کب ملے ہو؟ اسلحہ کہاں سے آتا ہے؟ اس طرح کے بہت سے سوالات پوچھے گئے میں حیران رہ گیا، خاموش رہا میں سوچ رہا تھا میں کیا جواب دوں، میرے پاس ان جیسے سوالات کا جواب نہیں تھا، پھر مجھ پر لاتوں کی بارش شروع ہوئی، میں بے بس تھا کچھ نہ کر سکا مجھے گالیاں دیتا رہا، کونسی سزا تھی مجھے نہیں دی گئی ایک تصویر مجھے دکھایا اس کو جانتے ہو میں نے کہاں نہیں جانتا ہوں پھر لاتیں۔

مجھےکہا کہ رہا ہوئے تو جاکر میری ماں کو میرا سلام کہنا، جھاؤ گزی کے ویرانوں میں میرا گھر ہے، وہاں میری بوڑھی ماں رہتی ہے جو دن رات میرا انتظار کرتی ہے، میرے گاؤں گزی کو میرا سلام کہنا، میں ایک چھوٹی سی کال کھوٹڑی میں بند ہوں۔ میرے لیے پریشان مت ہونا، میں لوٹ کر آؤنگا، ٹارچر سیلوں میں بند اپنے بھائیوں کی داستانیں جو فوج کے ہاتھوں سہہ رہے ہیں ان کو سناؤنگا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔