اسلام آباد اور کراچی میں طلباء کا بلوچ لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کیخلاف احتجاج

361

لاپتہ افراد کے لواحقین سردی میں احتجاج کررہے ہیں لیکن وزیر اعلیٰ بلوچستان شطرنج اور اسنوکر کھیلنے میں مصروف ہیں – مظاہرین

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسلام آباد اور کراچی میں طلباء کی جانب سے جبری طور پر لاپتہ بلوچ افراد کے لواحقین سے اظہاریکجہتی کرنے کیلئے مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئی۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد پریس کلب کے سامنے بلوچ، پشتون و دیگر طلباء کی جانب سے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور ریلی نکالی گئی جو مختلف شاہراؤں سے ہوتے ہوئے واپس پریس کلب پہنچی، مظاہرے میں طلباء کی بڑی تعداد نے شرکت کی جبکہ مظاہرین عدلیہ اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کرتے رہے۔

مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے طلباء کا کہنا تھا کہ ہم ان بچوں اور بہنوں سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے نکلے ہیں جو گذشتہ کئی دنوں سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے سردی میں بیٹھ کر اپنے پیاروں کی عدم بازیابی پر آنسوں بہا رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج ہم اتنے بے بس اور لاچار ہے کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کیلئے کچھ نہیں کر پارہے ہیں۔ ہم انہیں جھوٹی تسلی بھی نہیں دے سکتے ہیں کہ ان کے لاپتہ افراد واپس گھروں کو آئینگے بھی یا نہیں کیونکہ ہمیں معلوم نہیں کہ وہ لوگ زندہ بھی ہے یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ باعث شرم بات ہے کہ جن بچوں کو آج اسکول اور کھلونوں کی ضرورت ہے وہ احتجاج کررہے ہیں۔

مظاہرین نے وزیر اعلیٰ بلوچستان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین احتجاج کررہے ہیں لیکن وزیر اعلیٰ جام کمال شطرنج اور اسنوکر کھیلنے میں مصروف ہے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کو جھوٹی تسلی بھی نہیں دی جاتی ہے کیونکہ پارلیمنٹ میں بیٹھے افراد کے پاس اختیارات نہیں ہے۔

دریں اثناء کراچی پریس کلب کے سامنے بھی بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے مظاہرہ کیا گیا جس میں طلباء نے شرکت کی۔