آگے بڑھنے کےلیے خود کو پہچانو
سنگت بابل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
انسان نے اس دنیا میں جب سے اپنی شعوری زندگی کا آغاز کیا، تو معاشرتی زندگی میں چند اصول و ضوابط کے تحت اپنی زندگی کو ڈھالنا اس کی اولین شعوری کوشش تھی۔ شادی،بچے،خاندان، کنبہ اور قبیلہ سب اسی سمت میں تدریجی ارتقاء کے مختلف مراحل تھے۔ جنہوں نے بالآخر حکومت اور ریاست کی شکل اختیار کرلی۔ ایسی ہی ایک ریاست بلوچستان ہے۔ بلوچستان بلوچوں کے آباد ہونے سے ہے یہ بلوچوں کا اپنا وطن ہے بلوچ اپنے ثقافت کے حوالے سے مشہور ہیں۔ بلوچی پشک پوری دنیا میں صرف بلوچ کاہے۔ جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ بلوچ سخاوت اور جنگ دونوں میں اپنی مثال آپ ہے۔ بلوچ خواتین کے احترام میں اپنے بڑے سے بڑے دشمن کو معاف کردیتا ہے۔ بلوچ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ہوتے ہیں، چاہے کھیتی باڑی ہو یا گلابانی۔
لیکن آج بلوچ جس دور سے گذر رہا ہے، نہ اس کے بزرگ محفوظ ہیں، نہ عورتيں، نہ معصوم بچے، نہ مال مویشیاں محفوظ ہیں۔ نہ گھروں اور عبادت گاہوں میں رکھے ہوئے مقدس کتابیں، قرآن نہ اسکول محفوظ ہیں، نہ مزارات۔ لوگوں کو فوجی اتنے تنگ کرتے ہیں کہ لوگ اپنے علاقے چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کرکے اتنا تشدد کرتے ہیں کہ وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوجاتے ہیں، جب شہید ہوتے ہیں تو ان کی لاشیں بھی واپس نہیں کرتے بلکہ ویرانوں میں پھینک دیتے ہیں اور وہ بھی بے حرمتی کرکے بعض دفعہ تو ایسا ہوتا ہے کہ بہت سارے لوگوں کو ایک ساتھ شہید کرتے ہیں تو ان کی لاشیں کوئی گڑھا کھود کر ایک ہی جگہ ڈال کر اوپر مٹی ڈال دیتے ہیں۔ جیسے غلاظت کو بند کیا جاتا ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم اپنی زمین پر آباد ہیں، ہم نے کسی کے زمین پر قبضہ نہیں کیا ہوا ہے۔ اور ہماری زمین قدرتی وسائل سے مالا مال ہے یہ غیر فطری ریاست پاکستان آج زندہ ہے بھی ہمارے وسائل پر لیکن نہ ہمارے بچوں کو تعلیم کی سہولت میسر ہے، نہ میڈیکل کی نہ روزگار ہے نہ پینے کا صاف پانی، تمام بنیادی ضروریات سے محروم ہیں بلوچ لیکن ان سب سے بڑھ کر ہمارے لیے جو تشویش ناک ہے وہ ہے ہماری تشخص، ہماری پہچان، ہماری زبان، ہماری کلچر، ہمارا وطن جو آج ہمیں ہماری کلچر زبان سب کو مسخ کیا جارہا ہے آج ہم ایک ایسے قوم کے غلام ہیں جس کا نہ کوئی زبان ہے نہ کلچر ہے نہ تاریخ ہے نہ کوئی تہذیب ہے نہ کوئی پہچان ہے، نہ کوئی اپنا زمین ہے نہ اٌن میں کوئی انسانیت ہے۔
کیا بلوچ صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے؟ کیا بلوچ نے اپنی تاریخ بدل دی ہے؟ کیا بلوچ کو اپنی ناموس کی کوئی فکر نہیں؟ کیا بلوچ اپنا ضمیر بیچ چکا ہے؟ کیا بلوچ نے غلامی قبول کی ہے؟ کیا وہ بلوچ جن کے اجداد دوسروں کے عورتوں کی ناموس کی حفاظت کے خاطر اپنی جانیں قربان کرتے تھے آج اپنی ناموس کی پرواہ نہیں کرتے؟ جی نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے بلوچ آج بھی اپنی وطن، اپنی ناموس، اپنی تشخص کی دفاع میں مرمٹنے کو تیار ہے۔
بلکہ بلوچ وطن کی آزادی کی جنگ میں میدانِ عمل میں موجود ہے۔ آج بلوچ نے بے سروسامانی کے عالم میں اپنے دشمن کو بھیک مانگنے پر مجبور کیا ہے، آج دشمن تمام سرداروں کو پیسے دے دے کر کنگال ہوچکا ہے لیکن تحریک آزادی کو کاونٹر کرنے میں ناکام ہے، آج دشمن کئی ڈیتھ اسکواڈ تنظیموں کو پیسے دے رہا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں فوجی اور خفیہ اداروں کے لوگ بلوچستان میں لگے ہوئے ہیں۔ پھر بھی دہشت گرد نام نہاد اسلامی تنظیموں کو بلوچستان میں بیج رہا ہے تاکہ تحریک آزادی کو کاونٹر کرسکے لیکن ناکام ہے اس کے علاوہ حاصل، مالک، قدوس، سرفراز بگٹی، شفیق مینگل، جام کمال، اسلم بھوتانی۔ جیسے کئی لوگوں کو پیسے دے کر تحریک کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔
لیکن کوئی فائدہ نہیں، تحریک آزادی آج بھی اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ آج بھی بلوچ وطن کے فدائی مجید بلوچ، درویش بلوچ، ریحان بلوچ، رازق بلوچ، رئیس بلوچ، ازل خان مری جیسے کئی اپنے وطن کے دفاع میں کفن پوش لڑرہے ہیں۔ آج بھی بلوچ سرمچاروں نے دشمن فوج کو اتنا خوف زدہ کیا ہوا ہے کہ جب کوئی فوجی قافلہ کسی پہاڑی علاقے سے گزر رہا ہوتا ہے تو کوئی ایسی آواز اسے سنائی دے جو اسے لگے کہ گولی کی آواز ہے تو وہ اندھا دھند فائرنگ شروع کردیتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں گولیاں پہاڑوں کے سینے میں پیوست ہوجاتے ہیں اس طرح وہ ایک پتھر کی آواز کے جواب میں ہزاروں کی گولیاں برباد کردیتے ہیں اور یہ روز کا معمول ہے اور روزانہ کئی مقامات پر ایسے واقعے ہوتے رہتے ہیں دوسری طرف جو حملے ہوتے ہیں وہ الگ ہیں۔ اس طرح پاکستان کی جو بربادی ہےاس کی وجہ %80 بلوچ تحریک آزادی ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ بلوچ سرمچار اپنی کامیابی کی جانب بڑھ رہے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمیں ان کے حکمت عملیوں کے بارے میں معلوم نہیں دوسری جانب بلوچ سیاسی میدان میں مختلف پلیٹ فارمز پر مختلف طریقوں سے دنیا کے مختلف ممالک میں جدوجہد کررہے ہیں۔ کیونکہ آج بلوچ جہدکار اس بات کو جان چکے ہیں کہ زندگی وہ اچھی ہے جو کسی کام میں آئے ورنہ موت تو ایک دن آنی ہی ہے۔ اس لیے آج بلوچ جہدکار چاہے وہ مزاحمتی شکل میں ہوں یا سیاسی شکل میں وہ غلامی کی زندگی پر آزادی کی خاطر موت کو ترجیح دے چکے ہیں کیونکہ آج وہ جان چکے ہیں کہ زندگی اور موت میں کیا فرق ہے۔
اگر زندگی کسی خاص مقصد کی خاطر فنا ہوجائے، تو اسے حقیقی زندگی کہتے ہیں ورنہ بے مقصد کی زندگی اور مردے میں کوئی فرق نہیں۔ مردے کی کپڑے اتارو یا غلام کے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
آج تحریک آزادی کی راہ میں جدوجہد کرنے والے، اپنا سب کچھ قربان کررہے ہیں آج ہر طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے تحریک آزادی میں برسرپیکار ہیں۔
ہمارے بزرگ اور جوان تو لڑرہے ہیں لیکن عورتيں اور بچے بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ انسان کا سب سے نازک دور ہوتا ہے سنِ بلوغت کا جو 18 سال کے اندر عمر ہے۔ لیکن آج بی ایس او آزاد نے یہ ثابت کردیا کہ بلوچ کے بچے بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔
بلوچ کے ان بچوں نے سب سے زیادہ دشمن کو پریشان کیا ہوا ہے۔ آج پاکستان جتنا بی ایس او آزاد سے ڈرتا ہے۔ شاہد کسی سے ڈرتا ہو۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس نے بی ایس او کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا ہے۔ لیکن یہ بلوچ کے بچے ہیں، پاکستانی فوج نہیں جو ہزاروں کی تعداد میں ہونے کے باوجود بندوقیں پھینک دیتے ہیں۔ مجھے فخر ہے ان طلبا و طالبات پر جن کے ہاتھوں میں بندوق تو نہیں قلم ہے لیکن ان کی قلم بندوق سے زیادہ خطرناک ہے۔ پاکستان کےلیئے اس کی وجہ سے وہ ان طلبا سے بہت زیادہ خوف زدہ ہے۔ کیونکہ یہ طلبا پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں اور وہ دشمن کو ڈرانے میں سب سے آگے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت ہے، ذاکر جان کی اغوا۔ رضا جان کی شہادت کے بعد چیئرمین زاہد کرد کا اغواء، ان کے علاوہ کئی ساتھیوں کا اغواء اور شہادت کے باوجود 15 نومبر 2017 کو بی ایس او آزاد کے مرکزی سیکڑی جنرل ثناءاللہ اور سی سی ممبر نصیر بلوچ، حسام بلوچ اور بی این ایم ممبر قمبر بلوچ کی کراچی سے اغواء ہونا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان اِن طلبا سے کتنا خوفزدہ ہے۔
لیکن بی ایس او کے طلبا پارٹ ٹائم میں تربیت میں وقت گزارتے ہیں یا تحریک آزادی کے فلسفے کو سنوارنے میں صرف کرتے ہیں۔ یہ طلبا تحریک آزادی کے تخم ہیں۔ یہ شمعِ منزل ہیں اس لیے ان طلبا کی آبیاری کرنا ہمارے اوپر فرض ہے۔ تحریک آزادی میں بی ایس او کا کردار کتنا اہم ہے، یہ میں نہیں کہتا خود دشمن کا بی ایس او کے خلاف کریک ڈاؤن یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ بی ایس او سے کتنا ڈرتا ہے۔ ہم سب اس بات کو اچھی طرح جانتےہیں کہ بی ایس او آزاد ایک فیکٹری ہے شعور کی باشعور طلبا پیدا کرنے کی مشین ہے۔ آج یہ طلبا اس لیے نہیں پڑھتے کہ اچھا پیسہ کمائیں بلکہ اس لیے پڑھتے ہیں کہ کوئی اچھا کام کرسکیں اپنے قوم کےلیے۔ لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم لوگ صرف اپنی ہی زندگی میں مگن ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ہمیں کسی چیز کے بارے میں کچھ بھی علم نہیں۔ ہم اگر کھبی کبھار بیٹھ کر آپس میں کوئی موضوع چھیڑتے ہیں تو بھی وہ یہ ہوتا ہے کہ فلانہ کیسا ہے۔ فلانا تنظیم صحیح ہے یا غلط ہے۔ فلانے کے حکمت عملی کیسے ہیں۔ لیکن میرے عزیز دوستوں ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہم کیسے ہیں، ہم کیا کررہے ہیں۔ ہمارا کردار کیا ہونا چاہیئے اور کیا ہے۔ ہم نے کھبی سوچا ہے کہ شہیدوں اسیروں کے بچوں کو دو وقت کی سوکھی روٹی میسر ہے کہ نہیں۔ ہم چاہتے ہیں، ہمارے بچے مہنگے سکول میں پڑھیں لیکن ہم نے کھبی فکر کی ہے ان بچوں کی جن کے والد لاپتہ ہیں۔ ہم ایک گھنٹہ بھوکا پیاسا نہیں رہ سکتے۔ کھبی سوچا ہے کہ عقوبت خانوں میں ہمارے فکری بھائی کتنے دنوں سے بھوکے پیاسے ہیں۔ میرے دوستوں صرف بولنے بات کرنے سے کام نہیں ہوتے دوسروں پر تنقید کرنے سے بہتر ہے کہ میں اپنے گریبان میں جھانکوں، اپنے ضمیر کو جھنجوڑوں کہ میں اپنا فرض ادا کررہا ہوں کہ نہیں، کہیں ہم خواب غفلت میں نہیں کہ تحریک بہت آگے نکل گیا اور ہم بہت پیچھے رہ گئے۔ معذرت کے ساتھ مجھ جیسوں کی کوئی حق نہیں بنتا کہ میں تحریک آزادی کے جہدکاروں سے سوال کروں یا تنقید کروں اگر مجھے سوال کرنا ہے تو ان کے اس صف میں کھڑا ہوجاؤں جہاں وہ کھڑے ہیں۔
آج ہمیں ضرورت ہے کہ ہم خود کو پہچانیں، آزادی کےلیے لڑنے کےلیے ضروری ہے کہ بندہ خود کو اپنی ذات کی غلامی سے آزاد کریں۔ اپنی خواہشات کا غلام کھبی بھی قومی آزادی کی تحریک میں اچھا کردار ادا نہیں کر سکتا۔ استاد لینن کہتا ہے۔ اگر آپ حالات کے مطابق خود کو ڈھال نہیں سکتے۔ اگر آپ کیچڑ میں اپنے پیٹ کے بل رینگ نہیں سکتے تو آپ انقلابی نہیں بلکہ باتونی ہیں۔
میرے عزیز دوستوں خدارا خود کو پہچانو، جب تک ہم لوگ خود کونہیں پہچانیں گے تب تک یو نہی وقت کا ضیاع ہوتا رہے گااور کوئی بیمار ہوکر مرے گا کوئی گٹکا کھا کر مرے گا کوئی کسی حادثے میں مرے گا یہ مرنا ضروری عمل ہے، جو نہ چاہتے ہوئے بھی ہوجائے گا۔ لیکن ایسا نہ ہو کہ موت ہمارے سامنے ہو تو ہم پچھتاوے کہ ہائے میں کچھ کرکے مرتا کچھ اچھا کرکے مرتا۔ اپنے لیے نہیں قومی بقاء کےلیے آزادی کےلیے۔ ہمارے بچے کے پیٹ میں درد ہوتا ہے تو ہم دوسروں کو گالیاں دیتے ہیں کیا ان کے بچے بچے نہیں ہیں جنہوں نے سالوں سے اپنےبچوں کی شکل نہیں دیکھے ہیں، ہمارے ماں باپ بہن بھائیوں کو ہم عید پر کسطرح کے کپڑے دلوائیں اسی فکر میں لگے ہوئے ہیں لیکن اسیروں کے گھروالوں کو اسیر کیسے عید کی مبارک باد دیں۔ دوستوں یہ مشکل راستہ ضرور ہے لیکن بے مقصد نہیں ہم گٹکا، ماوا، چبا کر پھینک دیتے ہیں روزانہ کئی روپے اس طرح خرچ ہوتے ہیں بے مقصد لیکن اپنا سا وقت تحریک کو نہیں دیں سکتے، اگر ہمارے اعمال اس طرح کے ہونگے تو ہمارا حق نہیں کسی کے بارے میں بات کرنے کی جب تک ہم اپنی خواہشات کو کم نہیں کریں گے۔
دوستوں میرا مقصد یہ قطعی نہیں کہ سوال مت کریں، تنقید مت کریں، بلاشک کریں لیکن کچھ سوال خود سے بھی ضرور کریں۔
شہید پروفیسر صباء دشتیاری کہتے ہیں۔
طاقت ءَ گیش۔ واہگاں کم کن زند ءِ جنگجاہ ءَ فکر ءَ الم کن۔
تو کہ کوریں طبیب ءِ باہوٹ ءِ گوں وتی درداں ٹپاں الم کن
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔