یومِ شہدائے بلوچ 13 نومبر
تحریر۔ سنگت بابل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جب دنیا وجود میں آیا تو انسانی ہوس نے ایک دوسرے پر برتری کی جنگ شروع کی، جیسے جیسے دنیا میں آدم زاد کی آبادی بڑھتی گئی یہ جنگ بھی بڑھتی گئی فرد سے گھرانے، گھرانے سے قبیلے، قبیلے سے قوم اور پھر ہر قوم اسی تگ و دو میں لگی کہ ساری دنیا میں اس کی حکمرانی ہو، دنیا اٌس کے قبضے میں ہو، اس قبضہ گیری کی ہوس نے انسان سے انسانیت کو بھلادی۔ انسان نے اس جنگ میں یہ پروا کیے بغیر کہ انسانیت کا قتل عام ہورہا ہے آگے بڑھتے گئے، اس طرح قبضہ گیری کے ہوس کا شکار یہ انسان۔ انسان سے درندہ صفت بنتا گیا، قدرت نے بارہا ایسے بندے پیدا کیئے جو انسان کو انسانیت کی جانب متوجہ کرتے رہے مگران کے بعد خود ان کے نام نہاد پیروکار اسی قبضہ گیری ڈگر پر گامزن ہوئے اور کئی خود سے کمزور قوموں پر قبضے کیے جاتے اور انہیں اپنا غلام بناتے۔ لیکن ظالم کے مقابلے میں مظلوم ہمیشہ فتح یاب ہوتا چلا آرہا ہے کیونکہ مظلوم حق پر ہوتا ہے، اسے ظالم کے مقابلے میں یہ شعور حاصل ہوتا ہے کہ مظلومیت کیا ہے۔ کیونکہ وہ خود ظلم سہہ رہا ہوتا ہے۔ اس لیئے وہ ظالم پر بھی ظلم کرنے سے کتراتا ہے جو مظلوم کی کمزوری ہے اور ظالم مظلوم کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس پر اور ظلم کو بڑھاتا ہے لیکن کہتے ہیں کہ ظلم جب حد سے بڑھجاتا ہے تو اسے زوال پڑتا ہے اور یہ مشاہدہ انسان ہزاروں بار کرچکا ہے۔
مظلوم ظلم سہہ سہہ کر جب تَھک جاتا ہے تو وہ ظالم کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑا ہوجاتا ہے۔ جب مظلوم اعلان جنگ کرتا ہے تو پھر وہ آہنی دیوار بن جاتا ہے۔ جسے نہ بادل کی گرج تڑپا سکتا ہے، نہ آندھی کی تیز ہوا اس کی بنیادیں ہلا سکتا ہے، نہ ہی اسے تیز بارش تر کرکے گرا سکتا ہے۔ اب ظالم بےبس ہوجاتا ہے، اسے اپنی موت صاف دکھائی دینے لگتا ہے۔ اب ظالم چیخنے چلانے لگتا ہے، تو اس کے بھائی بند باقی دنیا جو کل تک مظلوم کی آواز کو سننے کےلیے ان کی سماعت اور بسارت جواب دے چکے تھے، آج ظالم کی فریاد ان اندھوں اور بہروں کی آنکھوں اور کانوں کو چیرنے لگتے ہیں، یہ جو کل تک مظلوم کےلیئے اف تک کہنے سے قاصر تھے، اب زور زور سے چِلانے لگتے ہیں کہ چلو اس مسئلے کو حل کرتے ہیں، وہ اصل میں مظلوم کےلیے نہیں ظالم کو اب اس مصیبت سے نکالنے کےلیے ہوتا ہے کیونکہ مسئلہ مظلوم نے پیدا نہیں کیا تھا یہ خود ظالم ہی تھا جو آکر مظلوم کے آشیانے پر ٹوٹ پڑا تھا لیکن اب ظلم کی مدد کو آنے والا خود کو مظلوم کا ہمدرد ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اب مظلوم یہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ میرا ہمدرد ہے، اسے یہ نہیں پتہ کہ اس نے ظالم کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اب وہ آپ سے باعزت چھٹکارہ چاہتا اس لیے اس کا بھائی بند میدان میں آیا تاکہ ظالم کو مظلوم کے قہر سے بچایا جائے۔
ان مظلوم طبقوں میں سے ایک بلوچ بھی ہے بلوچ اپنی سرزمین بلوچستان میں ہزاروں سالوں سے آباد ہے بلوچ بھی مسلسل کئی بار ان ہوس پرست قبضہ گیروں کے ظلم کا شکار رہا ہے، لیکن ہر دفعہ وہی ہوا جو ظالم کا مقدر ہے۔ ظلم بڑھتا گیا اور آخر اس کو زوال پڑگیا اور ظالم کو یہاں سے بھاگنا پڑا سب سے زیادہ قتل و غارت یہاں پر اسلامی لشکر نے کی تھی۔ اٌنہوں نے پوری کوشش کی کہ بلوچ کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے اور انہوں نے مٹا بھی دیا لیکن تاریخ نے خود کو دہرایا اور آخر انہیں یہاں سے بھاگنا پڑا اور بلوچ آج بھی اپنی زمین پر آباد ہے، آج بھی نام نہاد مسلمانوں کے ظلم کے سائے تلے زندہ ہے ظلم کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔
آج کا ہمارا موضوع ہے 13نومبر یومِ شہدائے بلوچستان، اس دن پوری دنیا کے بلوچ ان بلوچ فرزندوں کی یاد مناتے ہیں، جنہوں نے اپنی قومی بقاء کی خاطر ظلم کے خلاف لڑتے ہوئے خود کو فنا کردیا اور خود ہمیشہ کےلیے امر ہوگئے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ظالم کو خوف میں مبتلا کردیا کسی نے بندوق سے کسی نے قلم سے کسی نے کتاب سے اور کسی نے زبان سے لڑائی لڑی۔
تاریخ گواہ ہے جب برطانیہ نے 1839 کو بلوچستان پر حملہ کیا تو اس وقت کے چیف آف بلوچ مہراب خان نے اعلان جنگ کردی اور خود اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ اپنے وطن کی دفاع میں لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کی تو بلوچ قوم نے جنگ جاری رکھی اور یہ جنگ 40 چالیس سال تک جاری رہی، آخر کار برٹش انہیں شکست نہ دے سکا تو دھوکے سے ایک معاہدے کے تحت جنگ بندی کراکے سرزمین بلوچستان پر قابض ہوا لیکن جب دنیا کے مظلوم ایک ہونے لگے تو اس سے خوفزدہ ہوکر برطانیہ نے باعزت یہاں سے بھاگنے کو غنیمت سمجھا۔ وہ خود تو یہاں نہ بیٹھ سکا۔ جاتے جاتے اس نے یہاں اپنی کالونی بنا چھوڑی تاکہ بوقت ضرورت وہ اس کے زریعے اپنے مفادات کا دِفاع کر سکے اور اس برٹش کی کالونی نے بلوچستان پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا، اس کالونی کے نام نہاد قائداعظم نے فوج کو حکم دیا کہ بلوچستان پر حملہ کرکے خان احمد یار خان کو گرفتار کرلو اور اس وقت تک مت چھوڑو جب وہ اپنا وطن بلوچستان ہمیں لکھ کر نہ دیں اور قائداعظم کے فوج کے انگريز سربراہ جنرل گریسی نےاس کی حکم بجالائی اور رات کے اندھیرے میں شاہی محل قلات پر حملہ کرکے احمد یار خان کو گرفتار کرلیا تو اس کے بھائی اور گورنر مکران آغا عبدالکریم نے فوج پر حملہ شروع کردیا۔ بلوچ اس طرح حملے کرتے کہ بلوچ اپنا دِفاع نہ کرسکتا تھا، تو مجبور ہوکر دشمن نے دھوکے سے قرآن کا واسطہ دے کر جنگ بندی کرادی اور مذاکرات کے نام پر آغا عبدالکریم خان کو چند ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا تو جیل سے عبدالکریم نے (کے بی نظامانی) کو ایک خط لکھا کہ جنگِ آزادی کو جاری رکھا جائے۔ اسی طرح نواب نوروز خان نے جب دشمن پر حملے شروع کیئے تو دشمن فوج کے چیخیں پہاڑوں کو چیرنے لگے۔
کہتے ہیں کہ بلوچ وطن کے محافظ سرمچاروں نے خضدار کے ملحقہ پہاڑی علاقے میں ظالم فوج کو گھیر لیا تو فوج کے لاشیں ایسے گررہے تھے، جیسے پت جھڑ میں درخت کو جھاڑنے سے پتے گرتے ہیں، تو اب ظالم بےبس تھا کہ اس نے مکار نام نہاد سردار دودا خان زہری کے زریعے قرآن کو استعمال کرکے جنگ بندی کرادی اور پھر قرآن کو روندتے ہوئے نواب صاحب کو ساتھیوں سمیت گرفتار کیا اور ساتھیوں کو پھانسی دی گئی۔ یاد رہے گماشتہ سردار دودا خان زہری، دلال سردار ثناء اللہ زہری کے والد تھے گذشتہ برسوں اس نے بھی اپنے والد کی یاد تازہ کردی اپنے دور وزارت اعلیٰ میں دشمن کا چین و سکون حرام کرنے والے بلوچ سرمچاروں کے گھر کے عورتوں و بچوں کو گرفتار کرواکے قید کیا لیکن اس عمل سے ان کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا تو مجبور ہوکر چند خواتین کو رہائی دلائی اور اس کے بعد انہیں لات مارکر نکال دیا گیا، یاد رہے غداران وطن کا یہی حشر ہوتا ہے۔
نواب نوروز خان کی شہادت کے بعد بھی جنگ آزادی جاری رہی اور جاری و ساری ہے۔ یہ جو ظالم کے خلاف جنگِ آزادی ہے کھبی بھی اختتام پذیر نہیں ہوگا۔ ہمیشہ جاری رہے گا اس دن تک جب ظالم اپنے انجام کو پہنچے کیونکہ مظلوم کی جانب سے بلوچ وطن کے سپاہيوں نے مجایدین حق نے اپنی سروں کی بولی لگائی ہے۔ اور اٌن کی سروں کی قیمت ہے، ظالم کا سرناش اور آزاد بلوچستان اب جو بھی ان کے سامنے آئے گا اس کا مقام واصل جہنم ہوگا۔ اب شہدائے بلوچ نے اپنی تاریخ اپنے لہو سے لکھ دی ہے۔ اب نہ یہ رکنے والے ہیں، نہ بکنے والے ہیں اور نہ جھکنے والے ہیں۔ ہیں تو بس عظیم مقصد آزادی کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے، کٹنے والے ہزاروں شہیدائے وطن نے شہدائے حق نے، اس حق اور باطل کی جنگ میں خود کو فنا کرکے شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوکر ہمیشہ ہمیشہ کےلیے امر ہوگئے۔ مگر یاد رہے ان کی فنا ہی اصل میں ان کی بقاء ہے۔
آج میں فخر سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ بلوچ یہ جنگ جیت چکا ہے۔ کیونکہ ہزاروں مجاہدین نے جام شہادت نوش کی ہے اور ہزاروں ظالم کے عقوبت خانوں میں اذیتیں سہہ رہے ہیں، جن میں عورتيں بچے اور ضیف العمر لوگ بھی ہیں ہزاروں گھر راکھ ہوچکے ہیں۔ لیکن آج بھی ہزاروں بلوچ وطن کے مجاہدین آزادی کی جنگ میں ظالم کے سامنے میدان جنگ میں برسرپیکار ہیں۔
آج پھر تاریخ نے ثابت کیا کہ دنیا مظلوم کا نہیں ظالم کا ساتھی ہے، کیونکہ ظالم آج کچکول لیے دنیا سے بھیک مانگ رہا ہے کہ چونی، اٹھنی ایک روپیہ ڈال دیں تاکہ اپنا ظلم جاری رکھ سکوں، تو مجھے یقین ہے کہ دنیا اسے کچھ نہ کچھ ضرور دے گا تاکہ وہ ظلم جاری رکھ سکے۔ دوسری جانب مظلوم اپنے زورِ بازو پر اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ بلوچ سرمچار بلوچ سیاسی جہدکار، بلوچ ہر طبقہ، ہر محاذ پر دشمن سے برسرپیکار ہے، اپنے لہو سے اپنی مادرِ گلزمین کو سیراب کررہا ہے، آج ایک بار پھر دنیا اندھا و بہرہ بن چکا ہے۔ کہاں ہیں آج وہ مہذب ممالک؟ کہاں ہیں وہ انسانیت کے دعویدار؟ کہاں ہیں وہ سوشلسٹ، کمیونسٹ، مارکسسٹ، لیننسٹ؟ کہاں ہیں وہ جو انسانیت انسانیت کہتے تھکتے نہیں؟ کسی میں اتنی جرات ہے جو حق کی خاطر جام شہادت نوش کرنے والوں کو سلام کریں یعنی ان کی ساتھیوں کی اخلاق مدد کریں؟ آج پوری دنیا ظالم کے ساتھ کھڑا ہے لیکن پھر بھی شہدائے کے ہم رکاب نہتے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ اور سفر جاری و ساری ہے۔ اب یہ رکنے والے نہیں ہیں ہاں میرے جیسے ہونگے جو خود کچھ کرنے سے قاصر ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ دوسروں کی ٹانگ کھینچ کر اٌس کو اپنے برابر لائیں لیکن ہمیں یہ پتا نہیں کہ یہ بے قوفی کے سوا کچھ بھی نہیں جنہوں نے اپنے سروں کی بولی لگائی ہو انہیں ہمارے اس بےقوفی سے کرنے والی حرکت سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے۔
ہم تو شہرت چاہتے ہیں لیکن انہوں نے تو گمنامی کو ترقی دی ہے، شہدائے نے ہمیشہ اپنی مقصد کو سب کچھ سمجھا وہ تو ایک ہی بات جانتے اور سمجھتے تھے کہ اس آزادی کے شمع کو اپنے لہو سے روشن کرنا ہے۔ آج یہ شمعِ آزادی جو روشن ہے وہ شہدائے کے مرہونِ منت ہے اور جب تک یہ شمع روشن ہے تب تک پروانے اس پر خود کو ایثار کرتے رہیں گے، اب معاملہ بدل چکا ہے اب شمع کو نہیں خود پروانوں کو ضرورت ہے شمع کی خود کو ایثار کرنے کےلیئے۔ آج ہم شہیدوں کو یاد کرتے ہیں آج انہیں ضرورت نہیں ہماری یاد کرنے کی بلکہ یہ ہماری ضرورت بن چکی ہے کہ ہم انہیں یاد کریں ذرا ہم سوچیں کہ شہداء نے خود کو جس طرح فنا کیا، وہ کیا چیز تھی جو اٌنہیں اس مقام تک لے گئی۔ جس کی وجہ سے آج ہم اٌنہیں سلام پیش کرتے ہیں، کیا وہ ہمارے جیسے انسان نہیں تھے؟ کیا اٌنہیں دنیا میں رہنے کے خواہشات نہیں تھے؟ کیا وہ ہم سے الگ دنیا کے لوگ تھے؟ ان میں کیا چیز تھی، جو ہم میں نہیں ہے۔ ہم ان کی تعریف تو کرتے ہیں لیکن جس مقام شہادت کی وجہ سے آج ہم اٌن کی تعریف کرتے ہیں ہم خود اٌس مقام کی خواہش کیوں نہیں کرتے، خوداس مقام کی طرف کیوں نہیں بھاگتے؟ ہم خود کےلیے اس مقام کو کیوں نہیں چنتے، ہم خود کیوں اس مقام سے دور بھاگتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ وہ خود کو پہچان چکے تھے کہ ہم کون ہیں وہ یہ جان چکے تھے کہ ہم انسان ہیں گھوڑے گدے نہیں ہیں، ہمیں زیب نہیں دیتا کہ ہم غلام ہوکر زندگی گذاریں وہ اس بات کو جان چکے تھے۔ کہ خاموشی سے ظلم کو دیکھنے والا ظلم سہنے والا غلامی کو قبول کرنے والے اس ظالم کے ظلم میں برابر کے شریک کہلاتے ہیں، وہ انسان نہیں گدھے گھوڑے کہلاتے ہیں۔ لیکن ہم اب تک خود کو پہچاننے میں ناکام ہیں، جو لوگ خود کو پہچان چکے ہیں۔
وہ آج بھی ان کے منزل کے مسافر ہیں، وہ آج بھی اٌس شمع کو روشن کیئے ہوئے ہیں لیکن مجھ جیسے تو ایک محفوظ مقام پر بیٹھ کر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں اپنی شہرت سمجھتے ہیں۔ میں کس طریقے سے سلام پیش کرو ان شہدائے کو جنہوں نے کھبی یہ نہیں سوچا کہ ہمارے بعد کیا ہوگا۔
ہمارے قربت داروں کا ماں، باپ، بہن، بھائی، بیوی، بچوں سب کو ایثار کردیا، قومی تشخص کی بقاء کےلیئے اپنی تمام تر خواہشات کو ایثار کردیا، اپنی منزلِ مقصود پر اپنے اندر کی نفس کو للکارکر اٌسے پچھاڑ کر خود کو نفس کی غلامی سے آزاد کردیا، نہ والدین اٌن کی راہ کے رکاوٹ بن سکے، نہ بیوی بچے ان کو پیچھے مڑنے پر مجبور کرسکے، نہ انہیں آسائش اور آرائش روک سکے، نہ دولت و شہرت کی طلب، وہ تو بس دیوانہ وار عشق و حق میں معارفت کے عظیم سمندر کو عبور کرتے ہوئے خود کو انسانیت کے اعلیٰ مقام پر سرکرگئے بقولِ شاعر۔ عشق نے جب میرے اندر ڈیرہ ڈال دیا۔ تو میں نے خود زہر کاپیالہ بھر بھر کے پی لیا۔
وہ تو بس یہ بات سوچھتے تھےکہ کب غلامی کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گے۔ کب بلوچ آزاد فضا میں اپنی سانسیں لیتے ہوئے یہ کہیں گے۔
ماں چکاءِ بلوچانی مان ظالم ءَ نیلاں نوں۔
اے ظلم ءِ سگارانا گوں دستاں پروشانوں۔
کب ہمارے نوجوان۔ بزرگ کسی دوسرے مظلوم کی مدد کو آگے بڑھیں گے۔
شہدائے کے ہم رکاب آج بھی اٌسی طرح میدانِ عمل میں ہیں۔ ہماری طرح میدانِ تنقید میں نہیں ہیں۔ جس کی واضح مثال آج دیکھنے میں آتا ہے کہ ظالم نے اپنی لاکھوں فوج، خفیہ ادارے، مذہبی انتہاپسند تنظیمیں، شفیق مینگل، سراج رئیسانی، علی حیدر، سرفراز بگٹی کو میدان میں اتارا ہے لیکن پھر بھی ظالم کی سیکورٹی ادارے بھی محفوظ نہیں ہیں آج پھر بی اے پی اور بی این پی کو ٹاسک دیا گیا تحریک کو کاونٹر کریں، جس طرح اختر مینگل صاحب نے پارلیمنٹ میں اسیروں کی تعداد کو جو 40 ہزار سے بھی زائد ہیں، 5 ہزار کرکے بتایا اس سے وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ ماما قدیر نے انسانی حقوق کے اداروں کو جو لسٹ دی ہے وہ جھوٹ پر مبنی ہے، غلط ہے لیکن ظالم کے یہ سارے پروپگنڈے ناکام ہوتے جارہے ہیں کیونکہ آج بھی شہداء کے وارث بلوچستان کے حقیقی فرزند میدانِ عمل میں پیش پیش ہیں، آج بھی عام آبادیوں پر بمبارمنٹ جاری ہے، آج بھی لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کیا جارہا ہے، آج بھی بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جارہی ہیں۔ آج بھی ظلم و جبر کا بازار گرم ہے۔
آج بھی ظلم جاری و ساری ہے لیکن پھر بھی بلوچ وطن کے جانثاروں کا قافلہ آگے بڑھتا چلا جارہا ہے اور مجاہدین وطن، ہر محاذ میں میدانِ عمل میں ہیں۔ اور یہ جنگ اس طرح جاری و ساری رہےگا تاوقتیکہ ظالم کا سرناش ہو کیونکہ مظلوم کے ہاتھوں ظالم کی شکست اصل میں انسانیت کی بقا ہے اور وقت کی ضرورت بھی ہی ہے یہ حق اور باطل کی جنگ ہے، باطل طاقتور ضرور ہے مگر حق کی خاطر خود کو ایثار کرنے والے عشاق کو پچھاڑنا باطل کے بس کی بات نہیں، باطل قتلِ عام ضرور کرسکتا ہے لیکن حق کے پروانوں کی سوچ کو نہیں مار سکتا۔ شہداء کے حق میں انہیں سلام پیش کروں، یہ میری اوقات نہیں مگر میں ایک معروف حدیث ضرور بیان کرنا چاہونگا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مرجاو مرنے سے پہلے شہداء نے شہادت سے پہلے حق کی خاطر اپنی تمام تر خواہشات کو ترک کرکے اس حدیثِ مبارکہ پر عمل پیرا ہونے کا ثبوت دیا اور آج بھی شہداء کے فکری ساتھی ان کے راہ پر گامزن ہیں اور ایک دن وہ اپنے منزل کو پالیں گے اور باطل اپنی انجام کو پہنچے گا ظلم کا خاتمہ ہوگا۔
حق باقی رہے گا بلوچستان آزاد ہوگا بلوچ قوم آزاد ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔