گوادر نو آبادیاتی شکنجے میں – عبدالواجد بلوچ

252

گوادر نو آبادیاتی شکنجے میں

تحریر:عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

“نو آبادیاتی نظام سے مراد کسی ایک علاقے کے لوگوں کا دوسرے علاقے میں جا کر اپنی نئی آبادیاں قائم کرنا اور اردگرد کے علاقوں پر قبضہ کر کے اسے توسیع دینا ہے۔ جہاں یہ نوآبادی قائم کی جاتی ہے وہاں کے اصل باشندوں پر قابض گروہ عموماً اپنے قوانین، معاشرت اور حکومت بھی مسلط کر دیتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ قابض گروہ اور نوآبادی کے اصل باشندوں کے درمیان نا انصافی اور جبر پر مبنی ایک تعلق ہے جس میں اصل باشندوں کا استحصال ہوتا ہے”

نو آبادیاتی نظام اور اس امر کو پروان چڑھانے والی قوتیں ہمیشہ یہ کوشش کرتی ہیں اور اُن کا یہ خیال قوی ہوتا چلا جاتا اور وہ سوچتے ہیں کہ “ہم اپنی عالمی سیاسی طاقت زمین پر زبردستی قبضہ کرکے نہیں بڑھاتے۔ ہم اپنی طاقت بڑھانے کے لیے معاہدے کرتے ہیں، اتحاد بناتے ہیں، نگرانی کے نظام، تجارت اورکارپوریشن کے معاہدے کرتے ہیں، خفیہ معاہدے طے پاتے ہیں اور اہم ترین جگہ پر دہشت گردی سے نمٹنے کے بہانے قبضہ کرتے ہیں مہذب لوگوں کی طرح” یقیناً گذشتہ ستر سالوں سے جب بلوچستان پر پاکستانی تسلط اور قبضہ گیریت کے بعد آسیب کے سائے بلوچ باشندوں پر اپنا بسیرا کب کا کرچکے ہیں اس خطہِ زمین پر انگریز سامراج نے اپنے عزائم کی بڑھوتری کے لئے متحدہ ہندوستان کو دو لخت کرکے جب پاکستان بنایا تو ان عزائم میں سے بنیادی اہمیت “بلوچ زمین” کی جیوپولٹیکل اہمیت پر منحصر سوچ کا حاوی ہونا تھا. لیکن بدقسمتی سے اس وقت کے انگریز سامراج کو اس امر کا گمان ہی نا تھا کہ ایشیاء کے اندر چائینہ جیسے اژدھا اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو لیکر دنیا کے لئے ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے.

اپنے قارئین کیلئے لکھتا چلوں کہ سامراج ہے کیا؟ اس پر روشنی ڈالا جائے تو شاید ہمیں سمجھنے میں آسانی ہو کہ سامراج کس طرح اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے نو آبادیاتی نظام کا سہارہ لیکر اپنے نیچے دبے ان قوتوں کو زیردست باشندوں پر مسلط کرکے کیا کھیل کھیلتے ہیں. آج چائینا اس خطہِ زمین پر بلوچستان کے بالخصوس ایک اژدھائی سامراج بن چکا ہے”ایک ملک کی سرحدوں سے باہر جا کے دوسرے ملک کے اختیارات پر دخل اندازی کرنے کے عمل کو سامراجیت(imperialism) کہا جاتا ہے۔ یہ دخل اندازی جغرافیائی، سیاسی یا اقتصادی طور پر ہو سکتی ہے۔ کسی ملک یا کسی خطّے کو اپنے سیاسی یا مالیاتی اختیار میں لا کے وہاں کے باشندوں کو مختلف حقوق سے محروم کرنا اِس نظام کی سب سے ظاہری صورت ہے۔

نوآبادیات کے ذریعہ اپنے سامراج کو وسعت دینے والا یہ نظام، نامناسب اقتصادی، تہذیبی اور جغرافیائی مسائل پیدا کرتا ہے”

بلوچستان تو ایک آزاد ملک تھا، اس وقت کے انگریز سامراج نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے خاتمے پر جب برصغیر سے انخلاء کی تو انہیں پاکستان جیسے ملک کو معرضِ وجود دینے کے لئے ہندوستان کو دولخت کرکے پھر بلوچستان پر چڑھائی کرنا اس وقت کے ان عزائم کی تکمیل کا بنیادی اشارہ دکھائی دے رہا تھا لیکن دنیا میں انتہاء درجے کی تبدیلیوں کے بعد اس خطے میں انگریز کا وہ کردار اب نہیں رہا جس کے بارے میں انہیں مزید سامراجیت کے زمرے میں شمار کی جائے کیونکہ وہ لوگ رفتہ رفتہ جمہوریت کے اس سفر میں سامراجیت سے کوسوں دور جا چکی ہیں لیکن چائینا کی توسیع پسندانہ عزائم بلوچ و بلوچستان کو پاکستان کے ذریعے نگل رہی ہے۔

بلوچستان پر تو پاکستان نے ستر سالوں سے قبضہ کرکے بلوچ زمین کو اپنا کالونی تو بنا ڈالا ہے لیکن حال میں چائینا تو اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ وہ باقاعدگی سے رفتہ رفتہ گوادر کو اپنا ایک مضبوط کالونی بنانے جارہا ہے اور اس امر کو تیزی سے انجام دیا جارہا ہے “”

نوآبادی یا کالونی (colony) سے مراد ایسا علاقہ یا ملک ہوتا ہے جہاں غیر ملکیوں کی حکومت ہو۔ یہ غیر ملکی اس نوآبادی کی دولت مختلف طریقوں سے لوٹ کر اپنے ملک میں منتقل کرتے ہیں جس سے نوآبادی میں غربت بڑھتی چلی جاتی ہے جبکہ نوآبادی پر قبضہ کرنے والے ملک میں بڑی خوشحالی آ جاتی ہے۔ نوآبادی پر قبضہ کرنے والے ملک کو استعماری ملک (imperial power) کہا جاتا ہے.

آج یقیناً گو کہ اگر پاکستان خوشحالی سے خود کوسوں دور ہے لیکن گوادر کو لیکر گزشتہ حکومت نے پنجاب پر خوشحالی لانے کی جو تگ و دو کی وہ سب کے سامنے عیاں ہے آج اگر گذشتہ حکومت کی ریشہ دوانیاں حالیہ حکومت کے لئے درد سر بن چکی ہیں لیکن حالیہ حکومت پاگل پن حد تک آکر گزشتہ ستر سالہ استحصالی رویے کو دگنا کرکے بلوچستان پر خونی کھیل کے ساتھ ساتھ بلوچ سے بالخصوص گوادر کے باشندوں سے نوالہ چھیننے کے درپے ہے. چائینا ظالم بھیڑئیے کی مانند ہمہ وقت تیار ہے اور پاکستان کو لیکر کسی بھی کمپرومائز سے تیار نہیں گو کہ بلوچستان کی کٹ پتھلی حکومتیں اس غلام کی مانند اپنے آقا کے آگے سر بہ خم تسلیم کھڑے ہیں.

چائینا پاک اکنامک کوریڈور کو لیکر بلوچ کے لئے یہ معرکہ آخری ثابت ہونے جارہا ہے کیونکہ بلوچ لیڈرشپ کے لئے CPEC کو لیکر منظم لابیز موجود نہیں ہیں ہاں اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کئی عالمی قوتیں بلوچستان بالخصوص “گوادر” کی اہمیت سے واقف ہیں اگر چائینا کے توسیع پسندانہ عزائم و ظالمانہ رویے پریشان دوسری قوتوں کو ان سے باہمی اشتراک نصیب ہوئی تو بلوچ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا اور مزاحمت کا گلہ گھونٹا جائے گا اگر چائینا دوسری قوتوں سے اشتراک سے تیار نا ہوا پھر بھی تیسری جنگ عظیم کا ابتداء بلوچ زمین پر ہوگا اور نقصان بلوچ قوم کا ہے.

کل ایک وائس ریکارڈر سننے کو ملا جس کے اندر ایک بلوچ گوادر میں رُونما ہونے والی ان رویوں کو انتہائی کرب سے بیان کررہا ہے جس سے یہ اندازہ لگانا ناممکن نہیں ہوگا کہ چائینا گوادر کے اندر 85% اپنے پنجے گاڑھ چکا ہے۔ فقط ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بلوچ کس حد تک اس رویے کو سنجیدگی سے لیں گے. ہمارے لئے حالات اس نہج تک پہنچ چکی ہیں کہ مارو یا مرو کیونکہ بلوچ آزادی پسند قوتوں کے لئے گھیرا اتنا تنگ کیا جاچکا ہے کہ وہ ایک حصار کے اندر رہ کر بہادری سے اپنا کام سرانجام دے رہیں ہیں لیکن مشکلات کا وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ ہونا انتہاء درجے کا کرب ہمیں نصیب کرے گا. ہمارے لئے ممکن یہی ہے کہ ہم دشمن کم بنائیں اور دوست تلاش کریں کیونکہ بلوچستان کے اندر پارلیمانی طرز سیاست کُردوں جیسا نہیں جو ترکی کے پارلیمان میں “کردستان” کا نمائندہ بن کر اپنی صدائیں بلند کرتی ہیں. گو کہ بلوچ پارلیمان کا مضبوط نمائندہ اختر مینگل اپنے چھ نکات کو لیکر بلوچ زمین پر بیرونی تسلط کو کس حد تک ناکام بنائے گا. یقیناً اختر مینگل کے لئے وہ مقام آن پہنچا ہے کہ وہ نواب اکبر بگٹی بن کر تاریخ میں امر ہوجائیں یا کہ آنکھیں موند کر ان سامراجیت کے ظالم لہروں میں کہیں گم ہوکر بیٹھ جائیں.

شال پیش ءَ سگار ءِ ہرجان انت
دیناں بے سیتیں گنجیں گوادر شت

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔