گوادر : دیمی زِر چھن جانے کا خدشہ ، ماہی گیر پریشانی میں مبتلا

288

گوادر کے مشرقی ساحل ( دیمی زِر) پر ایسٹ بے ایکسپر یس وے منصوبے پر کام کاآغاز ہونے کے بعد مقامی ماہی گیروں کی بے چینی اور اضطراب روز بروز بڑھتی جارہی ہے ۔

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق مشرقی ساحل پر ایسٹ بے ایکسپر یس وے کا منصوبہ ایک سو چالیس ملین ڈالر کی لاگت سے مکمل کیا جارہا ہے جس کامقصد گوادر بندرگاہ کو مکران ساحلی شاہراہ تک ایکسس دینا ہے ۔

ایسٹ بے ایکسپر یس وے کے منصوبے کو گوادر کی بندرگاہ کی فعالیت کے امور میں اہم جز قرار دیا جارہا ہے جو گوادر فری زون تک ہوکر پھر مکران ساحلی شاہراہ تک ملائی جائے گی۔

حالیہ دنوں میں اس منصوبے پر کام کی رفتار میں تیزی آئی ہے سمندر کنارے بھی تعمیرات کے کام کا آغاز کیا جاچکا ہے کسٹم آفس سے لیکر ڈھو ریہ تک ڈریجنگ کا بھی کام شروع کیا گیا ہے ڈریجنگ کا کا م شروع ہوتے ہی ماہی گیروں کو سمندرسے اپنی کشتیاں نکالنے کا حکم بھی ملاہے۔

ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ اس وقت مشرقی ساحل پر چھوٹی اور بڑی کشتیوں کے ساتھ اسپیڈ بوٹ کی تعداد تقر یباً2000ہے جو روزانہ مشر قی ساحل سے ہزاروں کی تعداد میں ماہی گیر خاندانوں کی روزی روٹی کا بندو بست کر تے ہیں۔

تاہم ماہی گیروں نے اس حوالے سے گذشتہ روز مطالبات پر مبنی یاداشت بھی ڈپٹی کمشنر ضلع گوادر کو پیش کیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان کے روزگار کو ایسٹ بے ایکسپر یس وے منصوبے سے متاثر کئے بغیر1500 میٹر لمبی اور 600میٹر چوڑی گودی بمعہ جد ید آ کشن ہال تعمیر کر کے دی جائے جبکہ مستقبل میں ان کے روزگار کو مستقل طور پر بحال کر نے کے لئے گزروان کے مقام پر منی فش ہار بر بھی تعمیر کر کے دی جائے جبکہ سمندر میں آنے اور جانے کے لےئے تین مقامات ڈھوریہ ، گزروان اور بلوچ وارڈ میں گزر گائیں بھی بنائی جائیں جبکہ نئی نسل کی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں موجودگی اور ساتھ ہی روزگار ، صحت عامہ اور رہائشی سہو لیات بھی بہم پہنچا کر دےئے جائیں ۔

واضح رہے کہ دیمی زِر میں ایکسپر یس وے منصوبے سے موجودہ جی ٹی ( ہا ربر ) بھی متاثر ہوجائے گا جبکہ جی پی اے کے ماسٹر پلان میں جی ٹی کو ڈاک یارڈ بنانے کی بھی تجو یز زیر غور ہے ۔

غیر قانونی ٹرالنگ ماہی گیروں کے لئے ایک اژ دھا بن چکاہے اور یہ اژدھا کئی عرصہ سے ماہی گیروں کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا بڑے پیمانے پر غیر قانونی ٹرالنگ کے خلاف کاروائی کاآغاز یقیناًدو ررس نتائج کا حامل ہوگا ۔

سرِ دست ماہی گیروں کو دیمی زِ ر چھن جانے کا خدشہ ہے ماہی گیر اپنے گھر کے چولہے بجتے ہوئے دیکھ رہے ہیں

۔
دیمی زِ ر ایک طبقہ کی میر اث نہیں ہے بلکہ دیمی زِ ر من الحیث گوادر کی معاشرتی ، سماجی اور معاشی رعنا ئیوں کا ضامن ہے ماہی گیروں کو جو فکر دامن گیر ہے یہ اجتماعی مسئلہ ہے جنہوں نے ووٹ لیا اور مسندِ کرسی اور نمائندگی کے اہل ہوئے ہیں یا وہ جو سیاست اور عوامی فلاح وبہود کا دم بھر تے ہیں تما م کی ماہی گیروں کو توجہ درکار ہوگی۔

دیمی زِر سے ڈھوریہ ، گزروان اور بلوچ وارڈ والے ماہی گیر وں کی زندگی کی رعنائیاں قائم نہیں بلکہ جی ٹی پر برف توڑنے والے بھی اس دیمی زِ ر کی دم خم سے اپنی معاشرتی زندگی کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔

ماہی گیر گوادر کی 80فیصد آبادی میں شمار ہوتے ہیں ناخدا داد کر یم بچپن سے لیکر بڑھا پے تک اس روزگار سے وابستہ ہیں ۔ غنی آصف نے اپنے زندگی کے کئی قیمتی سال اس روزگار پر قر بان کر کے اپنے اہل و اعیال کو معاشرتی رعنا ئیاں فراہم کی ہیں اگر یہ سوال کر تے ہیں ان کو سننا چاہیے۔

ڈھو ریہ سے لیکر بلوچ وارڈ تک کئی ماہی گیر خاندانوں کے گھر وں کے چولہے کا دارو مدار دیمی زِ ر ہے اس نیلگوں پانی اور ماہی گیروں کا رشتہ اٹوٹ بندھن کی طرح ہے ،اٹوٹ بندھن کی ڈور اگر کاٹ دی جائے تو یہ ماہی گیروں پر بہت گراں گزرے گی۔ناخدا علی اکبر علی رئیس کے ہاتھوں پر ماہور کے چِر دان کے نقش دیمی زِر سے آبائی اور جدی رشتہ کے اٹوٹ نقش کی طرح پیو ستہ ہیں۔

مشرقی ساحل( دیمی زِر) پر ماہی گیری کے لئے سر گرمیاں بند ہونے کی صورت میں ہزاروں خاندان بے روزگاری کی عفر یت کا شکا ر ہوکر رہ جائینگے ۔