کچھ تلخ و شیریں یادیں عظیم کامریڈوں کے ساتھ ۔ ملنگ بلوچ

301

کچھ تلخ و شیریں یادیں عظیم کامریڈوں کے ساتھ

تحریر۔ ملنگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہر انقلابی کامریڈ کا اولین فرض ہے کہ عملی صورت میں مخلص اور ایماندار بنے، ایک انقلابی عمل کو اپنا خون و پسینہ نچھاور کرکے انقلاب کو کامیاب کرنا، اپنے مقصد کے حصول کیلئے ہر پل جدوجہد میں سرگرم عمل رہنا۔ انقلابی جدجہد میں ایسے کامریڈز بھی تھے، جو مظلوم و محکوم بلوچ قوم کی عزت، مال اور سرزمین کی دفاع اور ہر برائیوں سے پاک آزاد بلوچ سماج کی تشکیل دینا چاہتے تھے۔

اُن عظیم انقلابی کامریڈوں کو جاننے کی کوشش کی جائے تو ان عظیم انقلابیوں میں ہمیں شھید مسلم عرف ندیم، شھید دادجان عرف شےمُرید، شھید شریف عرف داد کے ساتھ ہزاروں عظیم شہداء ملیں گے، جو اپنے وطن کے سچے وارث تھے۔ وطن کے ہواؤں سے، وطن کے مٹی سے اور اپنے اُجڑے ہوے بستیوں سے وطن کے باسیوں کے ہر درد و غم کا احساس رکھتے تھے۔

ایک خوش مزاج اور ہونٹوں میں ہمیشہ مسکراہٹ رکھنے والا انسان کامریڈ شریف کو کہیں تو غلط نہیں ھوگا، شریف ھر وقت باقی کامریڈوں کو ہنساتا تھا، سب کامریڈوں سے اپنا خوشی تقسیم کرتا تھا، کھبی بُرے وقت اور حالات آتے تو حوصلہ دیتا تھا۔ سب دوست شھید شریف کو چارلی چپلن کہا کرتےتھے۔ جب میں اسے اس نام سے پکارتا تھا، تو بس ہنسنا شروع کرتا تھا۔ ایک واقعہ یاد آیا، ایک دن ہم سب بیھٹے تھے شھید شریف بھی وہیں بیٹھا تھا، کامریڈوں میں سے ایک نے کہا کہ “داد آج تیرے ان نیک ہاتھوں سے چائے نہ ھو جائے؟” تو اُسے اس وقت ایک شرارت ذہن میں آیا، تو چائے بنانے گیا پھر واپس ہنستا ہوا واپس چائے اور پیالہ ساتھ لیکر آیا سب دوستوں کو ایک ایک کرکے چائے پلایا مگر ہنس رہا تھا، سب جانتے تھے داد نے کوئی شرارت کی ھے لیکن کسی کو معلوم نہ تھا آخر کیا ھے۔ جب میں نے چائے کا پیالہ اٹھایا تو معلوم ھوا کہ شھید داد نے چائے میں چینی کے بجاۓ نمک ڈالا ھے، کہا ایسا کیوں کیا تو شھید داد نے ہنس ہنس کے مجھے جواب دیا کہ میرا چائے تو یہی ھے، اب جو ھوجائے آپ سب کو پینا ہے۔ شھید شریف نے کھبی بھی زندگی کو سیرئس نہیں لیا۔ وہ کامریڈوں کو ناخوش نھیں دیکھ سکتا تھا۔ ایک سچا ہمدرد تھا اس سچے ہمدرد کے ساتھ ایک اور بھی ہمدرد تھا۔

شھید مسلم ایک درویش صفت انسان تھا، جسے ھم دوستی سے باچو کہتے تھے۔ شھید مسلم جب کوئی کام کرتا اس کام کو اپنا فرض سمجھ کرایمانداری سے پورا کرتا، شھید مسلم ایک پھول تھا جس کی خوشبو کی مہک اب بھی مادر وطن کی ہواوں میں ہم ہر وقت محسوس کرتے ہیں۔ سب کیلئے اندھیروں میں وہ ایک روشنی تھا، شھید مسلم دل کا راجہ تھا، اسی لئے آج بھی دلوں میں راج کررھا ھے۔ شھید مسلم ہر وقت کامریڈوں کو اپنے پروگرام کے بارے میں اپنے تجربے کی بنیاد پر تجویز دیا کرتا تھا کہ اس پروگرام، اس طریقے سے پورا کیا جاسکتا یا اُس طریقے سے پورا کیا جاسکتا ھے۔ شھید مسلم کو اپنے مقصد سے مخلصی اور ایمانداری سے لگن تھا۔ میں اور شھید مسلم 4 جون 2015 کو ہمسفر تھے، اس سفر کے دوران بہت گرمی پڑ رہی تھی۔ ھم دونوں کے پاس پانی نہیں تھا، پانی بھی ختم ھوگیا، پانی ھم سے بہت فاصلے پر تھا، ہم بہت پیاسے تھے تو شھید مسلم اور میں بہت تھکے ھوئے شدید پیاس سے چکنا چور تھے، چلنا بھی گرم دھو پ میں مشکل لگ رہا تھا، لیکن اسی دوران میں نے دیکھا شھید مسلم بہت لگن اور خلوص سے اپنا سفر جاری رکھا ہوئے تھا۔ میں نے اس وقت اس عظیم ہستی کا خلوص اور لگن دیکھ کر اپنے تھکاوٹ سے بے علم ہوگیا، اُسی دن میں نے خلوص اور لگن شھید مسلم سے سیکھا۔

ہر وقت شھید مسلم کو دیکھا فارغ اور آرام سے نہیں دیکھا، ضرور دیکھا کسی کام میں مصروف عمل ہے۔ اپنے کام کو مخلصی، ایمانداری، خلوص اور لگن سے سرانجام دیتا تھا اور اپنے قومی جد جہد میں بھی آخری دم تک دشمن کے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑتا رہا۔ جنگ کی اس رات شھید مسلم اور شیھد شےمُرید بھی ساتھ تھے۔

شھید شےمُرید یاد ہیں مجھے تیری لال لال آنکھیں، جن میں آگ سا تھا۔ وہ آگ آپ کے آنکھوں میں مظلوم اور محکوم بلوچ قوم پر کئے گئے ظالم کے ظُلم کا آگ تھا، جو ظالم کے ظُلم کے بدلے کا منتظر تھا۔ شھید شےمُرید ایک آتش فشان سا تھا، جس میں اپنے وطن کے لاچاروں اور باقی کامریڈز کیلئے ایک جنون تھا، شھید شےمُرید دشمن کی آنکھوں کے سامنے تھا پانچ سال تک، لیکن دشمن شھید شےمُرید سے بے علم تھا کہ یہ بھی میرے ظلم کے خلاف بغاوت پر اُتر سکتا ھے۔ شھید شےمُرید اگر جب بھی ہمارے پاس آتا تو کسی پروگرام کے سلسلے میں آتا تھا۔

1اکتوبر2015 کو ایسا ھوا کہ شھید شےمُرید کسی پروگرام کیلئے ہمارے پاس آیا، شھید شےمُرید کو واپس جاکر اپنا پروگرام پورا کرنا تھا لیکن کسی اور پروگرام کی وجہ سے شھید شےمُرید کو ہمارے ہاں ہونا پڑا، ہمارا پروگرام پورا ہوا تھا کہ 19اکتوبر2015 کی رات آٹھ بجے سرد ھوائیں چل رہی تھیں، ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی، سب کامریڈ ایک ساتھ بیٹھے چائے کا مزہ لے رہے تھے، کچھ دیر بعد نو بجے کے قریب، بارش اور ہلکی ھوا میں سب دوستوں کو تین پاکٹ بنایا گیا اور ہر پاکیٹ میں تین کامریڈ تھے، ایک پاکیٹ میں شھید شےمُرید ، شھید شریف ، شھید مسلم تھے سب اپنے پوائنٹ پر چلے گئے۔ صبح کے چھ بجے کے قریب میں اور میرے دو اور کامریڈ اپنے بستر پر لیٹے ھوئے تھے، میں نیید سے اٹھا دیکھا کہ بھی تک تو اندیھرا تھا، تو میں واپس اپنے بستر پر لیٹ گیا، میں کروٹیں لے رہا تھا کہ جی تھری، ایل ایم جی اور پٹہ مشین کی گولیوں کا برسنا ھم سب پر شروع ھوگیا۔ مسلم، شریف، دادجان کے پوائنٹ سے بھی جوابی گولیاں چل رھیں تھیں، جب ھم نے اُنہیں کور دینا شروع کیا تو مسلم ، شریف ، دادجان کے پوئنٹ سے مارٹر سے بھی حملہ شروع کیا دشمن نے، مسلم، شریف، دادجان پہاڑ سے نیچے اترے، نیچے تک آتے آتے گولیوں کی آواز اور دل کی دھڑکن خاموش ہوگئے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔