پاکستان کی انسانی حقوق کے تنظیموں نے اپنے محافظوں کی تقدس کی خاطر کبھی ریاستی ٹارچر سیلوں کیخلاف آواز نہیں اٹھائی – ماما قدیر بلوچ
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3370 دن مکمل ہوگئے۔ لورالائی سے عوامی نشنل پارٹی کے ایک وفد نے لاپتہ افراد و شہدا کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے کیمپ کا دورہ کیا۔
وفدنے ماما قدیر سے سوال کیا کہ آج کل بلوچ خواتین کو بھی لاپتہ کیا جارہا ہے جس کے جواب میں ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ مذہب و اخلاقیت، چادر و چار دیواری عورت کو پردے میں ڈھکنے اور مغرب پر مشرق کی فوقیت کی جتنے گھن یہاں گائی جاتی ہیں شاہد دنیا میں کہیں اور ہوں مگر آئے روز خالی خولی دعووں کے منہ پر کالک ملنے کے لیے حوا کی بلوچ بیٹیوں اور ماؤں کے ساتھ ہونے والے انسانیت سوز سلوک ہی کافی ہیں۔ ایک ایسی ریاست جہاں وردی و غیر وردی والے بندوق بردار جب بھی چاہے کسی بھی ماں کی عصمت دری، کسی بھی گھر کی عزت تار تار کرسکتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا جہاں ڈکیت، گینگسٹر، ڈرگ مافیا، لینڈ مافیا عزت دار و شریف، فاتح کہلائے جاتے ہوں تو وہاں لاقانیت ہی قانون کا دوسرا نام بن جاتا ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں ریاستی جبر تلے انسانیت، اخلاقیات، مسلمانیت، جمہوریت و پاکیزگی گزشتہ ستر سالوں سے بلوچ خون میں نہا رہی ہیں۔ بلوچ وسائل کی لوٹ مار، بلوچ نوجوانوں کی شہادت، بلوچ ماؤں کی عزتیں تارتار ہورہی ہیں۔ بلوچ بچے بموں سے مر رہے ہیں مگر کوئی میڈیا یا انسانی حقوق کا چیمپئین سامنے نہیں آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاستی ایجنسیوں کی درندگی پر پاکستان کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی حب الوطنی کو سلام ہے کہ جو اپنے محافظوں کی تقدس کی خاطر ان کی تکریم میں کمی کے خوف کے باعث کھبی بھی ریاستی ٹارچر سیلوں کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں۔