بلوچ کسی سردار کے لئے نہیں بلکہ قومی بقاء کے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں – ماما قدیر بلوچ
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3367 دن مکمل ہوگئے۔ نوشکی سے طلباء کے ایک وفد نے لاپتہ بلوچ اسیران و شہدا کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کے کیمپ کا دورہ کیا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بلوچستان کو قبضہ کرلیا گیا مگر اصولی طور پر بلوچستان کے وہی مسائل ہونے چاہیے جو پاکستان کے دیگر صوبوں کے عوام کو درپیش ہیں مگر ایسا نہیں ہے، ستر سال گزرنے کے باوجود بلوچستان کے عوام کے ساتھ دوسرے بھی نہیں بلکہ تیسرے درجے کے شہری کا سلوک کیا جاتا رہا۔ اگر بلوچستان کو صوبائی خودمختاری مل جاتی تو بلوچستان کا ایک لاکھ تیس ہزار مربع میل کا علاقہ خون میں لت پت نہیں ہوتا مگر ہم یہ مان بھی لیں کہ 1973کے آئین سے بلوچستان میں صوبائی خودمختاری مسئلہ حل کردیا گیا ہے تو اس میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ پہاڑ جیسے سنگین مسائل منہ کھڑے ہیں پاکستان کے دیگر صوبوں میں چند لوگ مارے جائیں، کچھ گولیاں چلی تو انقلاب آجاتا ہے۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں جو ہوا آج تک قیامت پرپا ہوا ہے مگر بلوچستان میں ہزاروں نوجوان بچے خواتین لاپتہ ہیں اور ہزاروں لوگوں کو شہید کیا گیا ہے لیکن کسی کو پتہ ہی نہیں کہ کیا ہورہا ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ اس سیاسی اعتبار سے یہاں قومیتوں میں شروع ہی سے تضاد رہا ہے مگر پاکستانی حکمران استحصال طبقہ نے اپنے مخصوص سامراجی مفادات کے لیے غریب عوام اور قومیتوں سے اس قدر شدید نفرت کی ہے کہ آج وہ اپنی انتہا کو پہنچ گئے ہیں۔ ستر سال میں اس سرزمین پر اتنے مظالم ڈھائے گئے کہ برصغیر کی دو سو سالہ برطانوی دور حکومت میں بھی اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے عوام اپنے سرداروں کے لئے لڑ رہے تھے نا کہ لڑ رہے ہیں، غور کیجئے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ دنیاوی آسائشوں سے محروم ایک شخص اپنے نواب سردار کی حاکمیت کا قائم رکھنے کے لئے اپنی جان دے دیگا۔
آج کے دور میں یہ کس طرح ممکن ہے حقوق کی جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ وہی دیتے ہیں جن کی کمٹمنٹ مضبوط ہو۔ بلوچستان کے عوام کی جدوجہد سرداروں کی تحفظ کے لئے نہیں اپنے سیاسی، معاشی حقوق اور اپنی نسل اور قوم کی بقاء کے لیے ہے۔