چاغی میں تیزی سے پھیلتا کینسر کی مرض نے ایک اور نوجوان کی جان لے لی ۔
دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق پاکستان کی جانب سے 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد چاغی میں جہاں دیگر موذی امراض پھیل رہے ہیں وہی کینسر کی جان لیوا مرض بھی اب تیزی سے پھیل رہا ہے ۔
راسکوہ کے علاقے چھتر کا رہائشی 14 سالہ زبیر احمد ولد نذیر احمد بھی کینسر کی مرض میں مبتلا تھے جو آج زندگی کی بازی ہار گئے ۔
واضح رہے کہ چاغی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ایٹمی تابکاری کی وجہ سے ایک طرف جہاں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گر رہا ہے وہی دوسری طرف مختلف قسم کے موذی امراض بھی بڑی تیزی سے پھیل رہے ہیں ۔
بولان میڈیکل کالج کے اعداد و شمار کے مطابق صرف چار ماہ کے دورانیہ میں چاغی سے تعلق رکھنے والے 540 اپنڈکس کے مریضوں کا آپریشن کیا گیا ہے جبکہ نجی ہسپتالوں کے اعداد و شمار اس سے الگ ہیں ۔
چاغی کے رہائشی عبدالعزیز سنجرانی نے دی بلوچستان پوسٹ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دیگر امراض کے علاوہ اس وقت شب کوری ( اندھے پن ) کی مرض بھی عام ہورہا ہے ۔
عبدالعزیز کے بقول سورج کے غروب ہونے کے ساتھ ہی بعض لوگوں کی دیکھنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے ۔
راسکوہ کے رہائشی حاجی محمد ہاشم محمد حسنی سے جب دی بلوچستان پوسٹ نمائندے نے ایٹمی دھماکوں سے قبل اور بعد کی صورتحال کا پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی خاص اندازہ نہیں ہورہا ہے لیکن پہلے جب ہم پہلے اپنے زمینوں میں کام کرتے تھے تو آٹھ سے دس گھنٹے مسلسل کام کرتے اور کوئی تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی تھی لیکن اب حالیہ عرصے میں ایک گھنٹہ کام کرنے کے بعد سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے اور پورا بدن تھکاوٹ سے چور چور ہوجاتا ہے ۔
چاغی میں ایٹمی تابکاری کے پھیلاو اور آئے روز موذی امراض کی اضافے سے پریشان دالبندین کے شہری عبدالغنی بلوچ نے کہا کہ اس حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔
عبدالغنی بلوچ کے بقول چاغی میں اب جو بچے پیدا ہورہے ہیں وہ خون کی کمی کے شکار ہیں اور علاقے میں تھلیسمیا کا مرض بھی تیزی سے پھیل رہا ہے ۔
انہوں نے حکام بالا اور دیگر مقامی و عالمی این جی اوز سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ چاغی میں ایٹمی تابکاری سے پھیلنے والے بیماریوں کی سدباب کےلئے ضروری اقدامات اٹھائیں