یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے اُس خاتون کے خلاف فیصلہ سنا دیا ہے، جس نے دعویٰ کیا تھا کہ پیغمبر اسلام کو کم عمر بچوں سے جنسی میلان رکھنے والا شخص کہنا اس کا آزادی اظہار ہے۔
یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے ایک آسٹریائی خاتون کے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے کہ پیغمبر اسلام کو کم عمر بچوں سے جنسی میلان رکھنے والا مریض قرار دینا دراصل اس کے آزادی اظہار کے زمرے میں آتا ہے۔ اس خاتون نے عدالت میں اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا یہ بیان عوامی بحث کا ایک حصہ ہے۔
اسٹراس برگ میں قائم اس عدالت نے جمعرات کے دن فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ آسٹریائی عدالتوں کو ’آزادی اظہار اور دوسرے لوگوں کے مذہبی جذبات کے تحفظ کے حقوق کے مابین ایک توازن پیدا کرنا چاہیے اور ملک میں مذہبی امن کے برقرار رکھنے کے لیے جائز کوشش کرنا چاہیے‘۔
اس خاتون نے سن دو ہزار نو میں ’اسلام کے بارے میں بنیادی معلومات‘ کے نام سے دو مباحثوں کا انعقاد کروایا تھا، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ پیغمبر اسلام کی حضرت عائشہ کے ساتھ شادی دراصل بچوں کے ساتھ جنسی میلان رکھنے کی ایک نشانی تھی۔ ان واقعات کے بعد مسلمانوں میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا تھا۔
یہ معاملہ بعد ازاں عدالت میں گیا اور آسٹریا کی ایک عدالت نے اس خاتون کو مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں چار سو اسی یورو کا جرمانا کیا تھا۔ اپیل کے بعد ملک کی دیگر عدالتوں کی طرف سے اس فیصلے کو برقرار رکھنے پر اس خاتون نے یورپی عدالت برائے انسانی حقوق سے رجوع کیا تھا۔
اس خاتون کا کہنا تھا کہ اس کے یہ بیانات آزادی اظہار کے زمرے میں آتے ہیں اور دیگر مذہبی گروپوں کو برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اس خاتون نے یورپی عدالت برائے انسانی حقوق میں دعویٰ کیا تھا کہ اس کا مقصد اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش نہیں بلکہ وہ عوامی سطح پر ایک بحث کا حصہ بنی تھی۔
تاہم یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے کہا کہ اس خاتون نے یہ بیانات تاریخی حوالہ جات کے بغیر دیے اور اس کا مقصد عوامی بحث نہیں تھا۔ عدالت نے مزید کہا کہ اس خاتون کے یہ بیانات حقائق پر مبنی نہیں تھے اور اس کا مقصد اسلام کو بدنام کرنا تھا۔