پاکستان کی معاشی صورت حال دو سال تک نازک رہے گی – ورلڈ بینک

182

پاکستان کی معاشی صورتِ حال کم از کم دو سال تک نازک رہے گی جس کی وجہ کمزور معاشی ترقی اور غربت میں اضافہ ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق بینک کی نئی رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ سے لوگوں کو غربت سے نکالنے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں دشواری ہو گی۔

یاد رہے کہ  عمران خان کی حکومت نے ملک میں ایک کروڑ نئی ملازمتیں پیدا کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو بڑھتے ہوئے خسارے کو پائیدار بنیادوں پر طویل مدتی ترقی کے لئے کم کرنے کی ضرورت ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کو اپنی شرح نمو میں اضافے کے لیے مزید سرمایہ کاری اور صنعتی پیداور کو فروغ دینا ہو گا۔

پاکستان کے لیے ورلڈ بینک کے ڈاریکٹر النگانو پتچا موتو کا کہنا ہے کہ “اس سے زیادہ اور بہتر تنخواہوں والی ملازمتیں پیدا ہوں گی جو کہ مستقبل میں معاشی ترقی اور استحکام کے لئے قابل اعتماد راستہ ہے۔

آئی ایم ایف کی سالانہ میٹنگز کے دوران جاری کی گئی عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیا کا واحد ملک ہے جس کے راستے محدود ہیں۔ یہ چڑھتی اور گرتی معیشت کے حصار میں پھنسا ہوا ہے اور اس کے اخراجات بہت زیادہ ہیں۔

آئی ایم ایف کا قرضہ

پاکستان اس ہفتے آئی ایم ایف سے مذاکرات کا آغاز کرے گا۔ ان مذاکرات میں آئی ایم ایف سے چھ سے سات ارب ڈالر تک کے بیل آوٹ پیکج پر بات ہو گی۔ پاکستان کو اس وقت اپنا خسارہ پورا کرنے کے لئے اور اپنے زر مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کو کم کرنے کے لئے چھ سے سات ارب ڈالرکی ضرورت ہے۔

پاکستان کے اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے فیصلے سے ڈالر کے مقابلے میں روپے پر دباؤ بڑھا جس کے نتیجے میں روپے کی قدر میں تقریباً %9 تک کی کمی ہوئی ہے۔

اقتصادی ماہر عزیر یونس کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے نتیجے میں ڈالر مہنگا ہو سکتا ہے۔ اس وقت اوپن مارکیٹ میں ڈالر 135 روپے کے لگ بھگ ہے۔ جب کہ آئندہ دو تین مہینوں میں اس کی قیمت 140 سے 150 روپے کے درمیان پہنچ سکتی ہے۔

محمد سہیل جو کہ ایک معاشی ماہر ہیں، کے مطابق اگر آئی ایم ایف سے مذاکرات میں طے شدہ 6-4 ہفتوں سے زائد وقت لگتا ہے تو روپے پر دباؤ اور بھی بڑھ سکتا ہے۔

پاکستان کے آئی ایم ایف پروگرام میں جانے سے اس کی معاشی ترقی کی شرح نمو میں کمی کا اندیشہ ہو گا۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے شر ح سود میں اضافے کی بھی ضرورت رہے گی۔ اس کے علاوہ درآمدات پر ڈیوٹی پر بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان اس سے پہلے سعودی عرب اور چین سے بھی اس سلسلے میں بات کر چکا ہے جہاں پر کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی تھی۔

اس سے پہلے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ آئی ایم ایف ملک کی مالیاتی ضروریات کا واحد ذریعہ نہیں ہے اور اس سلسلے میں حکومت مختلف ذرائع کا انتخاب کرے گی۔ حکومت ‘دوست ممالک’ کے ساتھ رابطے میں ہے جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، جبکہ آنے والے ہفتوں میں چین سے بات چیت کی توقع ہے. مزید برآں، حکومت ایک جامع معاشی پالیسی پر بھی کام کر رہی ہے جس سے بیرونی فنانسنگ آپشنز پر غور کیا جائے گا۔

آئی ایم ایف نے حال ہی میں اپنی شائع شدہ عالمی اقتصادی آؤٹ لک میں پاکستان کے لئے جی ڈی پی کی ترقی کا اندازہ لگایا ہے جس کے مطابق پاکستان کی ترقی کی شرح ایک فیصد کی کمی کے ساتھ چار فیصد تک رہ سکتی ہے۔ اس سے پہلے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے یہ تخمینہ پانچ فیصد تک رکھا گیا تھا۔

آئی ایم ایف پروگرام پاکستان کے لئے نیا نہیں ہے۔ پاکستان اب تک اکیس مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ہے، ماضی قریب میں 2008 اور 2013 میں پاکستان آئی ایم ایف سے قرض لے چکا ہے۔