ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بیرونی دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہوئی ہے جس سے بنیادی طور پر زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی اور قرض کی شرح بڑھنے کے خطرے میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق ورلڈ بینک کی جانب سے جنوبی ایشیا سے متعلق ’بجٹ کرنچ‘ کے نام سے رپورٹ شائع کی گئی جس میں ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ فرق کو ختم کرنے کے لیے درست اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ مستقبل میں معاشی دباؤ کو برداشت کیا جاسکے۔
پاکستان کی معاشی صورتحال اس وقت خراب ہے اور مالی پالیسی سخت کرنے سے اخراجات کے ساتھ ترقی میں کمی کا امکان ہے۔
تاہم مالی صورتحال بہتر کرنے اور برآمدات کو بڑھانے کے لیے قلیل مدتی اقدامات کو مکمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملکی معیشت کو تنزلی سے باہر نکالا جائے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ پاکستان کے بڑھتے ہوئے خسارے کو درست کرنے کے لیے معاشی ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہے، کیونکہ دنیا میں بڑھتی ہوئی شرح سود کی وجہ سے پاکستان کو بہت زیادہ بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت پڑے گی۔
ورلڈ بینک کی جانب سے خبردار کیا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی ملکی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) 4.8 فیصد تک رہے گی کیونکہ حکومت کی جانب سے توازن برقرار رکھنے کے لیے مالی پالیسی کو مزید سخت کیے جانے کا امکان ہے۔
جیسے ہی پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر ہوگی تو جی ڈی پی 2020 میں 5.2 تک پہنچ جائے گی، تاہم اس بہتری کا انحصار میکرواکنامک استحکام، سازگار بیرونی ماحول، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں اور برآمدات کی بحالی پر ہوگا۔
ورلڈ بینک کے مطابق مالی سال 2019 کے دوران افراطِ زر کی شرح 8 فیصد تک رہے گی جبکہ یہ 2020 میں بھی برقرار رہے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے کے لیے ترسیلاتِ زر سے جزوی طور پر مالی معاونت ہوتی رہے گی۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق آئندہ 2 برس کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر دباؤ بڑھنے اور تجارتی خسارہ بڑھنے کا امکان ہے۔