ٹوٹی ہوئی کرسی – نادر بلوچ

851

ٹوٹی ہوئی کرسی

( Broken chair )

تحریر: نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سوئٹزرلینڈ کے ڈینیئل بریسیٹ نامی ایک آرٹیسٹ نے لکڑی سے کرسی کا مجسمہ بنایا، اس کے بنانے میں 5.5 ٹن لکڑی استعمال ہوئی۔ یہ 12 میٹر (39 فٹ) بلند ہے. جینیوا میں جہاں پر یہ کرسی رکھی گئی ہے۔ وہ ایک وسیع اور کشادہ میدان ہے۔ معزور اور خصوصی افراد کی تنظیم ہینڈی کیپ انٹرنیشنل نے سوئس مجسمہ ساز کی مدد سے اس ایک ٹانگ سے ٹوٹی ہوئی کرسی کو بنایا یہ ابتدائی طور پر صرف تین مہینے تک رکھنے کیلیئے تھی، لیکن اب اسکو تقریبا 20 سال کا عرصہ ہوگیا ہے. اسکو بنانے کا مقصد بارودی سرنگوں کے متاثرین پر توجہ دلانے کے لئے اقوام متحدہ کی خدمات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک معاہدہ پر دستخط کرنے کیلئے تمام ممالک کو راضی کرنا تھا۔ وقت کے ساتھ اب یہ جہد کی ایک علامت بن گئی ہے۔ بین الاقوامی طور پر یہ جنیوا کی پہچان ہے۔ جو اقوام متحدہ کے دفتر کے بلکل سامنے ہے اقوام متحدہ کے دفتر آنے والی ممالک کے وفود، نمائیندوں، سیاستدانوں کو بارودی سرنگوں کے استعمال اور کلسٹر بموں کا نشانہ بننے والوں کی یاد دلاتا ہے۔

1997 میں انسانی حقوق کی کارکنوں اور تنظیموں کی کوششوں سے بارودی سرنگوں کے استعمال پر پابندی عائد کرنے اور زیر زمین سرنگوں کی صفاہی کیلیے مہم چلاہی گئی جسکے بنیاد پر معاہدے پر دستخط کیئے گئے. یہ اوٹاوا معاہدہ کے نام سے جانا جاتا ہے. ہینڈی کیپ انٹرنیشنل اس مہم میں اکیلے کام نہیں کررہی تھی، دیگر ادارے بھی سرگرم عمل تھے تاکہ اوٹاوا معاہدے میں اقوام متحدہ کے تمام ممبر ریاستوں کی طرف سے مکمل تصدیق و تائید حاصل کی جاسکے. اوٹاوا معاہدے کو نافذ کرنے والوں کو ان کوششوں کیلئے 1997 میں بین الاقوامی نوبل امن انعام سے نوازا گیا. جبکہ معاہدے پر دستخط 1999 میں ہوا. تاہم ہنڈی کیپ سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں کی کوششوں کے باوجود، اوٹاوا معاہدے پر بعض ریاستوں نے دستخط نہیں کی. اس معاہدے پر اب تک 162 ممالک نے دستخط کیئے ہیں، جن ممالک نے دستخط نہیں کیئے ان میں امریکہ، روس، اور چین شامل ہیں جو انسانی حقوق کی چیمپین ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ جنکی وجہ سے آج بھی بارودی سرنگوں کی صفائی ایک بڑا مسئلہ ہے.

بروکن چیر، پرامن احتجاج کرنیوالوں کے لئے ایک پرکشش جگہ ہے. سینکڑوں لوگ اسکے سائے میں نظر آتے ہیں۔ دنیا بھر سے اکثر مظاہرین اور کارکن خاموشی سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرکے اپنا کیس دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں. بروکن چیر پر اس قسم کی احتجاج اور سرگرمیاں دیرپا اور اثر انداز ہوسکتی ہیں لیکن اس کیلئے مسلسل اور غیر معمولی کوشش کرنی پڑتی ہے. بلوچ قومی تحریک کو اجاگر کرنے میں بھی بروکن چیئر کا اہم کردار ہے، جہاں پر تحریک آزادی میں متحرک تنظیمیں مختلف اوقات میں اپنا احتجاج ریکارڈ کراتی ہیں اور بلوچستان کے مسئلے کو اقوام عالم کے سامنے اجاگر کرتی ہیں۔ جن کی تصویریں اور ویڈیو اکثر و بیشتر میڈیا میں آتی رہتی ہیں، یقیناً یہ کاوشیں ایک نہ ایک دن بلوچ قوم کے لیئے خوشخبری کا پیغام بن کر آئیں گی۔ کیونکہ اقوام عالم کے متعین کردہ عالمی اصولوں کے مطابق بلوچ قومی تحریک پچھلے ستر سالوں سے اقوام عالم کی توجہ بلوچستان کے حقیقی مسئلے قومی غلامی پر مبذول کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ وقت و حالات کے مطابق جدید سائنسی طور طریقوں کو بلوچ تنظیمیں اپنا رہی ہیں اور قوی امکان ہے کہ وہ اس جانب دنیا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکی ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اقوام عالم کیوں بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے فیصلہ کن کردار ادا کرنے سے کترا رہی ہے۔ وہ کون سے عوامل ہیں جو اقوام متحدہ کی ضمیر کو جنجھوڑ نہیں پارہی ہیں حالانکہ بلوچ قومی تحریک میں شامل سب متحرک تنظیمیں اپنی بساط کے مطابق جہد و جہد جاری رکھے ہوۓ ہیں۔ پھر کمی اور کوتاہی کہاں سے ہو رہی ہے؟ دنیا کے دیگر ممالک میں کانفرنسز کا انعقاد اور مظاہروں سے احتجاج بھی ریکارڑ کرائی جارہی ہے۔ بروکن چیر تک آزادی پسند تنظیمیں پہنچ چکی ہیں۔ مگر اب تک کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو پارہی۔ یہاں تک کے انسانی حقوق کی بنیاد پر اب تک اقوام عالم کی توجہ مسنگ پرسنز یعنی پاکستانی عقوبت خانوں میں بند بلوچ اسیروں کی رہاہی اور جنگی قیدی قرار دینے کیلئے بھی حمایت حاصل نہیں کر پائے۔

بروکن چیئر جہاں ایک عظیم انسانی مسئلے کو حل کرنے کے نشان کے طور پر پہچان رکھتی ہے وہیں پر محکوم و مظلوم قوموں کی حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والے جہد کاروں کو ایک امید بھی فراہم کرتی ہے۔ اس یادگیری کرسی کا قیام ایک معاہدے کی یاد دلاتی ہے جس کو اقوام عالم نے انسانی بھلائی کے لیئے عملی جامہ پہنایا۔ آج بلوچ قوم، جہد کاروں، سیاسی رہنماوں، اور سیاسی تنظیموں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیئے کہ انکی کوششوں میں کوئی کمی نہیں، جسکی وجہ سے اقوام عالم، تحریک کی جانب متوجہ نہیں ہو پارہی، بلکہ کمی ہے تو اتحاد و یکجہتی کی، کمی ہے تو اس بکھری ہوئی قوت کو یکجا کرنے کی۔ کمی ہے تو بلوچ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بہتر طور پر اجاگر کرنے کی، آج بلوچ قومی جہد کاروں، سیاسی رہنماوں، اور سیاسی تنظیموں کو بھی قومی مفادات اور قومی تحریک آزادی کو مزید مستحکم، منظم و یکجا کرنے کیلے ایک معاہدہ کرنے کی ضرورت ہے، جو بروکن چیئر جیسا یادگار معاہدہ ہو۔ ایک ایسا معاہدہ، جسکا مقصد ایک ہی مرکز پر جمع ہونا ہو۔ جس میں تمام تنظیموں کی نمائندگی ہو۔ ہزار اختلافات ہوں، طریقہ کار پر اعترازات ہوں، کمی کوتاہیوں پر نقطہ چینی ہو لیکن سب اس مرکز کے گرد بیٹھنے کے لیے راضی ہوں۔ اسی ایک ٹیبل پر ہر حال میں ہمیشہ بیٹھنے کے لیے پابند ہوں تب ہی حقیقی معنوؑں میں قوم پرستی اور نیشنل ازم کی تقاضوں پر پورا اترنا آسان ہوگا۔ اتحاد و یکجتی کو فروغ ملے گی، شکوک و شبہات ختم اور اعتماد بڑھے گی۔ اس معاہدے کے لیے کسی کو آگے آکر سبکو یکجا کرنے کے لیے اٹھانا پڑے گا، رہنماؤں، سیاسی کارکنوں اور تنظیموں کو اپنا تاریخی کردار ادا کرنا ہوگا اور پھر بلوچ وطن کی آزادی کیلئے اقوام عالم کو متوجہ کرنا، انکی بلوچ قومی آزادی کے لیے حمایت حاصل کرنا ہرگز مشکل نہیں ہوگا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔

۔