نیشنل ازم کی بنیاد پر سیاسی اداروں کی تشکیل
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
چند اصطلاحات کے گرد گھومنا یا چند خوشنما جملوں کے پیچھے اپنے بدنما کردار کو چھپانا کسی انقلابی کا شیوہ نہیں بلکہ انقلابی علم سے عمل کی رہنمائی کرتے ہوئے اپنے کردار کو اس مقام پر پہنچاتا ہے، جہاں اسے کسی سے تقابلی جائزے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ اس کا منفرد عمل اسے ایک الگ مقام پر پہنچاتا ہے۔
جہاں بے کردار لوگوں کو تقابلی جائزوں کی آڑ میں باکردار انقلابیوں کے ہم پلہ لاکھڑا کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے، وہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انفرادی شخص کو کرشماتی میں ڈھالنا کوئی نیک شگون نہیں بلکہ اجارہ داری کو برقرار رکھنے کی ایک مذموم کوشش ہے۔
انقلابی کرشماتی نہیں ہوتے، نا ہی وہ ایسے تصوراتی باتوں کے ارد گرد اپنا وقت ضائع کرتے ہیں ان کا تعلق انسانی زندگی کے زمینی حقائق سے ہوتا ہے اور وہ اسی کو تبدیل کرنے کے لیے جہد مسلسل میں اپنا عملی کردار ادا کرتے ہیں۔
انقلابی کردار کے حامل افراد اپنے رویوں سے اپنے مثبت کردار کو ثابت کرتے ہیں اور ان کی معاملہ فہمی یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسروں پر الزام لگانے کی بجائے اپنے کردار کو بہ احسن نبھاتے ہیں۔
پاکستانی سیاست کے اثرات باعث ہمارے لیئے انقلابی کردار کا تعین مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ ہماری نفسیات کی تشکیل میں اس کی جڑیں کافی حد تک پیوست ہیں۔ ہمارا سیاسی کلچر کافی پسماندہ ہے اور اس پر اجارہ داری ہی چلتی آرہی ہے، موجودہ تحریک کے ابھار میں بھی اسی ذہنیت کو کارفرما دیکھا جاسکتا ہے جو پرانے فرسودہ خیالات کا ہجم لے کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔
آج کل بڑے زور و شور سے ایک بات اٹھائی جارہی ہے کہ جو جہدکار تحریک کو اداروں کی بنیاد پر منظم کرنا چاہتے ہیں وہ تحریک کو طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے درپے ہیں اور ان کے لیے مڈل کلاس کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ آگے بڑھ کر یہی افراد قبائلی نظام کو سپورٹ کرتے ہوئے سوشلزم کو تحریک میں ناکامی کا مورد الزام ٹہراتے ہیں۔
سب سے پہلے تو اس بات کا تجزیہ کرنا چاہیے کہ بلوچ نیشنلزم کی تحریک میں اجارہ داری کو کون قائم رکھنا چاہتا ہے؟
اگر بلوچ جہدکار اداروں کی بنیاد پر تحریک کو منظم کرنا چاہتے ہیں تو اس میں طبقاتی تقسیم کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے؟
اگر اداروں کی بات کرنا طبقاتی تقسیم ہے تو پھر قبائلی مزاج کے تحت انفرادی بنیادوں پر آگے بڑھنے کو کیا نام دیا جائے؟
دور جدید کے حوالے سے اداروں کی اہمیت سے کون ذی شعور انکار کرسکتا ہے لیکن فرسودہ روایتی قبائلی ڈھانچے کو برقرار رکھنے کے لیے ہمارے کچھ دوست گمراہ کن حد تک غلط بیانی کرتے ہیں۔
وہ قبائلی نظام کے حوالے سے ہزار جواز فراہم کرینگے لیکن در حقیقت اصل بات یہ ہے کہ وہ ذاتی یا گروہی وابستگی کی بنیاد پر اجارہ داری کو قائم رکھنا چاہتے ہیں، ان کے پاس کوئی عقلی جواز نہیں اس لیے وہ اس حوالے سے مڈل کلاس جیسے اصطلاحات کا سہارا لینگے۔ اہم پہلو یہ بھی ہے کہ بلوچ سماج کے ارتقائی عمل میں قبل از نوآبادیاتی نظام میں قبائلی نظام اور نوآبادیاتی نظام میں برطانوی transformed قبائلی نظام اور پھر اب تک کے سفر کو سمجھنے اور قبائلی نظام کا بطور نوآبادیاتی نظام کے نمائندگی کو باریک بینی سے سمجھنے کی کوشش کرنے کی بجائے سارا ملبہ مڈل کلاس جیسے اصطلاحات پر ڈال کر راہ فرار اختیار کی جاتی ہے۔
سوشلزم کے خلاف جس سطح کا پروپیگنڈہ کولڈ وار کے دوران کیا جاتا تھا تاکہ لیفٹ سے لوگوں کو بدزن کیا جاسکے اسی سطح کے خیالات بلوچ تحریک میں ہمیں دیکھنے کو مل رہے ہیں کیونکہ جو بلوچ تحریک کو منظم کرنا چاہتے ہیں ان کے خلاف کوئی اور جواز نہیں ملتا ماسوائے طبقاتی تقسیم کے۔ جس طرح افغان جہاد میں یہ بیانیہ عام تھا کہ کمیونسٹ فارسی کے دو الفاظ سے مستعار لیا گیا ہے “کمیو یعنی خدا” نیست یعنی نہیں” یعنی کمیونسٹ اس کو کہتے ہیں جو خدا کے وجود سے انکاری ہے۔ مولوی حضرات جمعہ کو خطبوں میں اسی بات کی ترویج کرتے تھے۔ یہی نفسیات آج قبائلی نظام کے حامی بلوچ تحریک میں اپناتے ہیں وہ اہم مسائل پر بات کرنے کی بجائے مڈل کلاس کا لیبل لگا دیتے ہیں اور راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔ لیکن تحریک کو یہاں تک پہنچانے میں کونسے رویے کارفرما تھے؟
کیا قبائلی ذہنیت نے بلوچ تحریک کو یہاں تک نہیں پہنچایا؟ اسی ذہنیت کے غلبے سے جب بلوچ جہدکار نکلتے ہیں تب ان کا کردار کسی اور معیاری سطح پر پہنچ جاتا ہے لیکن یہی وہ کردار تھے جنہیں قبائلی ذہنیت نے کسی اور ہی کام میں لگا دیا تھا اس باریکی کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قبائلی فرد کے ماتحت ہونے اور اداروں کے ماتحت ہونے سے human resource کتنا ڈویلپ ہوتا ہے اور کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔ کج روی بحث سے لے کر ادارہ سازی تک پہنچنے کے لیے جب قبائلی مزاج کو چھوڑ دیا گیا تب یہی کردار ناقابل قبول بن گئے اور ان پر طبقاتی تقسیم کا لیبل چسپاں کردیا گیا۔
دوسرا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ جناب انسانی سماج کی تاریخ سے ہی نابلد ہے وگرنہ ماہرین تو انسانی سماج کی تاریخ کو طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہی قرار دیتے ہیں۔ طبقات سماج کی حقیقت ہے اور اس سے انکار کیسا۔۔۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے نا ہی بلوچ کی تحریک تقسیم ہوگی نا ہی کمزور بلکہ اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بلوچ تحریک نیشنلزم کی بنیادوں پر استوار ہے اس کی راہ میں رکاوٹ قبائلی ذہنیت ہے جو طبقاتی سوچ کو ڈھال بنا کر اپنا تحفظ کرنا چاہتی ہے جبکہ دوسری جانب جو جہدکار اداروں کی بنیاد پر تحریک کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں وہ یہ چاہتے ہیں کہ تحریک میں اختیارات کی تقسیم ادارتی بنیادوں پر ہونی چاہیے اور فیصلے قبائلی مزاج کی بجائے سیاسی بنیادوں پر ہوں۔
دوسری جانب جو طبقاتی تقسیم کا راگ الاپتے ہیں وہ اس پورے دورانیے میں بری طرح ناکام ہوتے آرہے ہیں اور جو بھی ان کے قبائلی مزاج کے مطابق نہ چلے اس کو دیوار سے لگانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ تحریک کی بنیاد پر وار کرکے قبضہ گیریت کے حوالے سے تاریخ کو غلط بیان کرنے کے حوالے سے بھی وہ خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں اور ان کے اس قبائلی موڈ پر کوئی سوالیہ نشان نہیں اٹھتا۔۔۔ جو سوال اٹھاتا ہے اسے برطرف کیا جاتا ہے یا معطل کیا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جو طبقاتی تقسیم کا الزام لگاتے ہیں جارحانہ فیصلے بھی ان کی طرف سے آتے ہیں، بغیر کسی طریقہ کار کے معطل کرنا لیکن جب کوئی سوال اٹھاتا ہے تب زبان بندی کے لیے لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ ایسا آخر کب تک چلتا رہیگا؟ قبائلی نظام کا آخر کب تک دفاع کیا جاتا رہیگا؟
اگر جدوجہد کرنا ہے تب اس جدوجہد کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا وگرنہ ہم اگر اسی طرح قبائلی سوچ کا دفاع کرتے رہینگے تب ہم اس قومی تحریک کو کبھی بھی منظم نہیں کرسکینگے۔
اگر قبائلی ذہنیت میں اس قدر طاقت ہوتی تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے اور ایک اچھا خاصہ دورانیہ اور بہت بڑے انسانی سرمایہ سے یوں ہاتھ نہ دھونا پڑتا۔ ہم محدود سے محدود ہوتے چلے گئے لیکن آج بھی ہم انہی بنیادوں پر دوبارہ کھڑا ہونا چاہتے ہیں جو بوسیدہ ہیں۔
آج وقت کا تقاضہ ہے کہ قبائلی نظام کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے ہم اپنی تحریک کو اداروں کی بنیاد پر مستحکم کریں اور نیشنلزم کی اس تحریک میں سب اپنا کردار اداروں کے ماتحت ادا کریں یونہی ہم منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں اور اسی طرح بلوچ تحریک اپنے وجود کو برقرار رکھ سکتا ہے۔