نرگسیت – برزکوہی

688

نرگسیت

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

مشہور و معروف اور آج کل ایک عام ذہنی و نفسیاتی مرض نرگسیت جس سے شاید ہر ذی شعور انسان باعلم ہوکر بھی بےعلم ہے۔ ویسے انسانوں کی اکثریت خود مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہوکر بھی خود انکی تشخیص نہیں کرسکتا بلکہ دوسرے لوگ بھی آسانی کے ساتھ انھیں پہچان نہیں سکتے ہیں، اسی طرح نرگسیت بھی ایک خطرناک نفسیاتی مرض ہے، جس سے خاندان، قوم، ریاست، تحریک، تنظیم، گروہ اور ادارے بھی آخر کار زوال کا شکار ہوجاتے ہیں لیکن اس مرض کا پہچان اتنا واضح اور سادہ نہیں ہوتا بلکہ لوگوں کے لیئے سیدھا سادہ رویہ ہوتا ہے۔

اسی حوالے سے مبارک حیدر صاحب کی کتاب تہذیبی نرگسیت سے استفادہ کرتے ہیں کہ نرگسیت کے مریض کو پہچاننا اس لیئے مشکل ہوتا ہے کہ ہر لمحہ اداکاری کے ذریعے اپنی انا کی حفاظت کرتا ہے اور دنیا کے سامنے ایک جعلی تشخص بنائے رکھتا ہے۔ چنانچہ نرگسیت کے مریض دھوکہ دہی کے استاد بن جاتے ہیں لیکن ان لوگوں کو پہچاننا اس لئے ازحد ضروری ہے کیونکہ یہ اپنے منفی رویوں سے تنظٰم کی کارکردگی خراب کرتے ہیں۔

میرے خیال میں اور بھی ایسے بے شمار نفسیاتی مرض ہیں، کچھ ماہرین نفسیات کے مطابق یہ ہزاروں کی تعداد میں نہیں البتہ سینکڑوں کے تعداد میں ضرور ہونگے، جب تک علم نفسیات پر مکمل عبور حاصل نہ ہو اس وقت ان کی علامات کو سمجھنا نامکمن ہوگا جب سمجھنا نا ممکن ہوگا تو پھر کسی بھی انسان کی ذہنی تربیت اور اس سے اس شخص کو چھٹکارا مشکل نہیں ناممکن ہوگا پھر انسان جتنا بھی کوشش کرے اسے راہ راست پر لانے میں مکمل ناکام ہوگا۔ کیونکہ کسی بھی نفسیاتی مرض کی تشخیص کا ایک الگ طریقہ ہوتا ہے، پھر اسی کے مطابق ہر مرض کے علاج کا بھی ایک الگ طریقہ اور اصول ہوتا ہے۔ ذرا بھی تشخیص اور علاج میں بے اصولی اور طریقہ کار میں غلطی سرزد ہوا، تو سود مند ثابت نہیں ہوگا۔

ہم دوبارہ مبارک حیدر کی کتاب کی طرف آتے ہیں کہ نرگسیت کے شکار افراد کی نشانیاں کچھ اس طرح ہیں۔

۱۔ نرگسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اجتماعی ضرورتوں کو اپنی ضرورتوں پر اولیت دے سکے۔ وہ دوسروں کے لیے ہمدردی سے خالی ہوتا ہے ۔ مثلاً جب وہ آپ کی خیریت پوچھتا ہے تو یہ ایک عادت اور حسنِ اخلاق کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اسے حقیقت میں آپ کی خیریت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

۲۔ جب نرگسی شخص کی انا کو خطرہ پیدا ہوجائے تو وہ صحت مند آدمی سے کہیں زیادہ جذباتی ردعمل ظاہر کرتا ہے، حتیٰ کہ نرگسی طیش کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جب کسی تقابلی جائزے کے نتیجے میں وہ دوسروں سے کم تر نظر آئے تو وہ عام آدمی سے کہیں زیادہ غم و غصہ اور جارحیت دکھاتا ہے۔ دراصل اس کے مزاج کے اتار چڑھاؤ کا تعلق عام طور پر اسی بات سے ہوتا ہے کہ سماجی تقابل میں اسے اپنے بارے میں کیا خبر آئی ہے، یعنی تعریف ہوئی تو اتراتا ہے اور اگر کمتر قرار دیا گیا ہے تو آپے سے باہر ہوا یا پھر احساس مظلومیت کا شکار ہوجاتا ہے۔

۳۔ عام آدمی ناکامی کی صورت میں خود کو قصور وار سمجھتا ہے لیکن نرگسی شخص اپنی ناکامی کو اپنی ذات سے باہر نکال دیتا ہے یعنی دوسروں پر ڈال دیتا ہے کیونکہ ایسے شخص میں اپنی ناکامی کو شرم ناک بناکر اپنی نفسیات میں مستقل گوندھ لینے کا رجحان ہوتا ہے۔ لہٰذا اس شرمناک بات کو یعنی اپنی ناکامی کو ہر صورت میں اپنے اوپر سے ہٹاکر کسی اور پر ڈالنا ضروری سمجھتا ہے۔ البتہ کبھی کبھی جب نرگسی شخصیت کی نظر میں اپنا مقام بہت ہی بلند ہو اور اسے اپنا مقام پست ہونے کا خطرہ نہ ہو تو ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ ناکامی کی ذمہ داری قبول کرلے ۔ تاہم اس میں بھی اپنی عالی ظرفی کی دھاک بٹھانے کاجذبہ ہوتا ہے اور وہ اپنی کوتاہی کی ذمہ داری قبول کرنے سے پہلے اس بات کی تسلی کرلیتا ہے کہ اس کا ثمر اسے تعریف و توصیف کی صورت میں ملے گا۔

۴۔ تکبر، خودنمائی، فخر اور فنکارانہ مطلب براری نرگسی شخص کی صفات ہیں، جن کا مظاہرہ وہ کبھی کھلے بندوں اور کبھی نفاست سے کرتا ہے۔ وہ تعریف و تحسین کا بھوکا ہوتا ہے۔ نرگسی طیش، دوسروں کی کردار کشی اور اپنی نمائش، نرگسی شخصیت کے طرزِ عمل کے ظاہری حصے ہیں۔ مثلاً اپنے ہم پلہ یا فائق لوگوں کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ مجھ سے جلتے ہیں، یا یہ کہ میرے خلاف سازش کرتے ہیں۔ ایسے الزامات وہ کبھی کھلے بندوں اور کبھی اشارتاً لگاتا ہے۔

۵۔ چاہے اس کی گفتگو میں نمائش کا عنصر صاف نظر آرہا ہو، پھر بھی نرگسی مریض کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی اہمیت کا تاثر اس انداز سے چھوڑے کہ جیسے اس کا مقصد نمائش یا بڑمارنا نہیں تھا۔ مثلاً کسی بڑی شخصیت سے ملاقات کا خصوصی ذکر کرنے کی بجائے اس طرح سے خبر پھیلائے جیسے اس شخصیت سے ملاپ ایک معمول کی بات تھی۔ مثلاً مسٹر فلاں میرے ہاں کھانے پر آئے تو کہنے لگے یار تمہاری وہ بات اور وہ بات وغیرہ وغیرہ۔ مقصد دو ہوتے ہیں: سننے والے سے ایک حد ادب قائم کرنا اور اپنے اعلیٰ مقام کی خبر پھیلانا۔

ماہر نفسیات ڈاکٹر ڈیوڈ تھامس کے پی ایچ ڈی پروفائل سائٹ پر نرگسی شخصیت والوں کے خواص مختصراً یوں ہیں:

۱۔ ان کے ہر کام میں دوسروں کے جذبات سے لاتعلقی ہوتی ہے۔ مثلاً رسمی اخلاقیات اور اپنی نیکوکاری کے اظہار کے لیے مزاج پرسی وغیرہ۔ جس میں حقیقی دلچسپی موجود نہیں ہوتی۔

۲۔ ان کے تقریباً تمام خیالات اور طرزِ عمل دوسروں سے مستعار ہوتے ہیں یعنی یہ لوگ ایسے لوگوں کے خیالات و اطوار کی نقالی کرتے ہیں جنہیں یہ سند مانتے ہیں۔ اسے عکس کی پیروی (Mirroring)کہا جاتا ہے، یعنی یہ ان بڑے لوگوں کی پیروی کے ذریعے دراصل خود کو عظیم محسوس کرتے ہیں۔

۳۔ دوسروں کے مشائل و جذبات سے لاتعلقی کے نتیجے میں انہیں دوسروں کی بات کاٹنے اور اپنی سنانے کی جلدی ہوتی ہے۔ یہ کبھی دوسرے کی بات سمجھنے کے لیے نہیں سنتے بلکہ اس لیے سنتے ہیں کہ اس کے جواب میں انہوں نے کیا کہنا ہے۔ لہٰذا ان کا سیکھنے کا عمل محدود اور ان کا علم انا سے رنگا ہوا ہوتا ہے۔

۴۔ یہ چھوٹے کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے بلکہ دوسروں پر ڈالتے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں چھوٹے چھوٹے کاموں میں وقت ضائع کرنا ان کی اہم شخصیت کے شایانِ شان نہیں ہوتا۔

۵۔ ان کے خیال میں کام کے قواعد کی پابندی کرنا ان پر لازم نہیں ہوتا۔

۶۔ اگر انہیں یقین ہو کہ پکڑے نہیں جائیں گے تو دھوکہ دہی سے نہیں چوکتے۔

۷۔ جب آپ کام میں ان سے شراکت کریں تو آپ یقین رکھیں کہ کام کا بڑا حصہ آپ کو ہی کرنا ہوگا۔

۸۔ یہ جب کوئی کام دوسروں کے سپرد کرتے ہیں تو پھر اس کی چھوٹی چھوٹی تفصیل میں دخل اندازی بھی جاری رکھتے ہیں۔ پھر اگر کام خوبی سے مکمل ہوجائے تو اس کا سہرا اپنے سرباندھ لیتے ہیں لیکن اگر بگڑ جائے تو الزام اس پر ڈال دیتے ہیں جسے کام سپرد کیا گیا تھا۔

۹۔ جب موضوعِ گفتگو یہ خود ہوں تو یہ دیر تک سنتے ہیں اور کبھی روکتے نہیں، تکھتے نہیں۔ لیکن اگر گفتگو کا موضوع کوئی دوسرا ہو یا ایسا مسئلہ زیر بحث ہو جس میں ان کی ذات کا ذکر نہین آتا تو یہ دورانِ گفتگو بے قرار یا لاتعلق ہوجاتے ہیں۔

۱۰۔ نرگسی شخص کے ساتھ کام کرنے والوں پر ذہنی اور نفسیاتی دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ لہٰذا جن تنظٰموں میں یہ لوگ بالادست حیثیت میں ہوں وہاں ملازموں اور اہلکاروں میں غیر حاضری کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔ جہاں یہ ماتحت اہلکار کی حیثیت سے ہوں، وہاں ساتھیوں سے ٹکراؤ کی حالت میں رہتے ہیں یا احساسِ مظلومیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

تو ان تمام مختصر علامات کی روشنی اور علم نفسیات کے دیگر پہلووں کا تناظر میں ہم یہ نچوڑ حاصل کرسکتے ہیں کہ جب انسان اندر سے کھوکلا ہو اس میں کچھ کرنے اور آگے بڑھنے کی ہمت اور صلاحیت نہ ہو اپنے اوپر پورا پورا بھروسہ اور یقین نہ ہو، احساس کمتری کا شکار ہو، تو وہ ایسے حرکتوں اور رویوں میں مبتلا ہوگا، جو نرگسیت کا نشاندہی ہے۔

فرانسیسی فلاسفر جان پال سارتر نرگیسیت کا شکار نہیں تھا، اس نے نوبل انعام کی پیشکش اس لیے مسترد کی کہ اس کے خیال میں ایک ادیب کو سوائے اپنے الفاظ کے کسی اور چیز کا سہارا نہیں لینا چاہیئے۔ اپنے قلم کے ساتھ کسی خاص قسم کا اثرورسوخ وابستہ کرنا اپنی ذات سے بددیانتی ہے۔ اگر صرف ”ژاں پال سارتر” لکھا جائے یا ”ژاں پال سارتر نوبیل انعام یافتہ” لکھا جائے تو دونوں میں نمایاں فرق ہے۔ پہلی صورت میں وہ صرف اپنی ذات کو پیش کرتا ہے اور دوسری صورت میں ایک ایسے اعزاز کا سہار ا لے کر اپنی ذات کی نمائندگی کرتا ہے جو نہایت خاص افراد کا سرمایۂ افتخار ہے۔ اس سے ذات کی اصل حقیقت کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ ذات کی نفی ہوتی ہے۔ اسی طرح کولمبیا کے مفکر اور عظیم ناولسٹ گبریل گارشیا مارکیز اپنے مشہور ناول تنہائی کے سوسال (جس کو تحریر کرنے میں مارکیز کو 17 مہینہ لگ گیا، پورے 17 مہینے ایک کمرے بند تھا)کو اپنے موت کے بعد شائع کرنے پر بضد تھا۔

کیا انسان خود اپنے کردار اور عمل سے خود مطمین نہیں ہوگا؟ وہ پھر دوسرے سطحی چیزوں کا سہارا لیکر اپنے آپ کو عظیم تر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے؟ کیا یہ بذات خود احساس کمتری اندر سے کھوکھلاپن اور نرگسیت نہیں ہے؟ دوسرے عظیم انسانوں کا نقل کرنا خود کو ہوبہو ویسا سمجھنا (قطع نظر ان کے نقش قدم اور طریقہ کار پرچلنا)لیکن چلنا اور سمجھنا دو مختلف چیزیں ہیں۔یا اپنے نام کے آگے و پیچھے کوئی معمولی اور غیر معمولی اعزازی نام کا اضافہ کرنا اور خوش ہونا۔ کیوں سارتر نے صرف سارتر نام ہی پر مطمین تھا۔ وہ عظیم سارتر فلاسفر، دانشور، ادیب، استاد، میر، معتبر، وڈیرہ، سردار، نواب وغیرہ کا کیوں سہارا نہیں لیتا ؟ اور اسے اپنے ذات کے ساتھ بددیانتی قرار دیتا۔ کیونکہ وہ اپنی صلاحیت، کردار اور عمل کی وجہ سے خود عظیم فلاسفر تھا۔ اسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں تھا، وہ نرگسیت اور احساس کمتری کا شکار نہیں تھا، وہ اندر سے کھوکھلا نہیں تھا، وہ عظیم تھا، فلاسفر تھا، حقیقی فلاسفر ویسے بھی ہمیشہ درویش صفت، بے غرض، بے خوف اور کسی بھی طرح لالچی، سستی شہرت کے بھوکے نہیں ہوتے۔ بس وہ علم دوستی اور عملی کردار کے مالک ہوتے ہیں۔ شہرت اور کامیابی خود ان کی قدموں کو چومتی ہے ناکہ وہ خود نام و مقام اور سستی شہرت کے بھوکے اور اس کے پیچھے گھومتے ہیں۔

کہتے ہیں تربت شہر میں ایک پینٹر یعنی آرٹسٹ تھا، وہ اپنے دوکان میں مختلف بورڈ وغیرہ لکھتا تھا، تو آخر میں اپنا نام یعنی فلان آرٹس لکھتا تھا تو ایک دن شہید فدا احمد بلوچ اس سے مخاطب ہوا کہ یہ آخر میں اپنا نام کیوں لکھتے ہو تو پینٹر نے جواب دیا لوگ جان سکے یہ بورڈ میں نے لکھا، تو فدا احمد نے اس سے کہا آپ اپنا کام اس طرح خوب صورت کرو محنت کرو لوگ خود پوچھیں اور آپ کے پاس آجائیں کہ اس کو کس نے لکھا ہے۔

دوسرے امراض کی طرح نرگسیت کے بھی بہت سارے قسم اور مختلف سطوحات ہوتے ہیں، یعنی کم سطحی، کثیر سطحی جب کم ہوگا تو اگر فوری طور پر ان کے تشخیص اور علاج نہیں ہوگا وہ پھر شدت اختیار کرکے ذیادہ ہوگا۔ جس سے انسان کا کردار بربادی اور زوال کی جانب راغب ہوگا۔ نرگسیت کے مریضوں سے اکثر اس کے آس پاس کے لوگ بے چینی، مایوسی کی کیفیت کا شکار ہوکر تنگ آکر بیزار ہوتے ہیں اور جان خلاصی کی کوشش کرتے ہیں۔ نرگسیت کے مریض اپنے آپ کو نامکمل انسان سمجھ کر جھوٹ بولتے ہیں اور دوکھے بازی ان کا شیوہ ہوتا ہے۔

نرگسیت کے مریض کا سوچ یہ ہوتا ہے کہ ہر اچھے کام اور کارنامے میں میرا نام اور حصہ ضرور ہونا چاہیئے، نرگسیت کے مریض میں معمولی سطح کا بھی برداشت نہیں ہوتا، وہ جلد سیخ پاء ہوتا ہے اور طیش میں آتا ہے۔ وہ دوسروں کی آراء اور بات کو منفی سازش، مخالفت، اپنی بے عزتی تصور کرتا ہے، جو اس کے مزاج اور طبیعت کے برعکس ہو۔ نرگسیت کے مریض کا ہمیشہ یہ خواہش ہوتا ہے کہ ہر چیز اور ہر کام سب سے پہلے میرا ہونا چاہیئے کیونکہ وہ انفرادی احساس کے مالک اور خود غرض ہوتا ہے۔ نرگسیت کے مریض مصنوعیت اور دکھاوے کے عادی ہوکر انتہائی فنکارانہ انداز میں اپنی اصلیت کو چھپاتے ہیں، جب تک علم نفسیات سے کوئی واقف نہ ہو، اس وقت تک اس کے پہچان اور علامات کی جانکاری نہیں ہوگی۔ نرگسیت کا مریض سوائے آپنے آپ کے دوسروں کے کردار، صلاحیت، ہنر، ذہانت اور کارناموں کو کبھی بھی دل و جان سے قبول نہیں کرتا ہے۔ ظاہری اور روایتی انداذ میں مجبوراً اور دکھاوے کی حد تک دوسروں کی تعریف کرتا ہے لیکن اندر ہی اندر دل میں حسد اور جلن محسوس کرتا ہے۔

تعریف اور خوشامد پر بے حد خوش ہونا، خوشامدپسند لوگوں کو سرپر بٹھانا، نرگسیت کے مریضوں کا خاص مرض ہوتا ہے، نرگسیت کے مریض کے ساتھ دوسرے شخص جتنا بھی ہمدردی، نیکی اور خیرخواہی کریں وہ اسے اس لیے جھوٹ، دکھاوا، سازش تصور کرتا ہے کیونکہ وہ خود ہی ایسا ہوتا ہے۔ پھر دوسروں کو بھی ایسا ہی سمجھتا ہے، نرگسیت کے مریض اگر دوسروں کو حقیر فقیر سمجھتے ہیں، وہ ہمیشہ طنزیہ انداز میں دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، نرگسیت کے مریض ظاہری اور دکھاوے کے حد تک یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں کہ میں کچھ نہیں، میں کچھ نہیں جانتا ہوں اور کچھ نہیں کیا لیکن عملاً اور ہمیشہ یہ تاثر دیتے ہیں، سب کچھ میں نے کیا ہے اور سب سے اعلیٰ باکردار اور باعمل میں ہوں، نرگسیت کے مریض کا اگر کوئی بھی کام خراب ہوا تو کہتا ہے میں نے تو کہا تھا، یہ خراب ہوتا یا پھر یہ کہتا ہے اگر یہ کام میں کرتا تو کبھی خراب نہیں ہوتا۔

علم نفسیات انسانی کردار اور روح کو جھنجھوڑ کر آسانی کے ساتھ ان تمام امراض کو ایک ایک کرکے واضح کرتا ہے اور ان کا حل اور علاج دریافت بھی کرتا ہے، جن سے چھٹکارہ ممکن ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی انسان یہ جانتا ہے کہ آگ کو ہاتھ لگانے سے انسان جل جاتا ہے تو وہ کبھی بھی آگ کو ہاتھ نہیں لگا ئیگا اور دوسروں کو بھی ترغیب دیگا، اسی طرح اگر علم نفسیات سے انسان بلد ہو وہ کبھی بھی نفسیاتی امراض کا شکار نہیں ہوگا اور دوسروں کو بھی بچا سکتا ہے۔

اس حوالے سے باقاعدہ اپنے لوگوں اور نوجوانوں کی تربیت انتہائی ضروری ہے تاکہ صحت مند ماحول، سماج اور معاشرے کی موجودگی میں قومی تحریک آگے رواں دواں ہو، پھر آئیڈیل تحریک کا خواب ایک خواب نہیں بلکہ حقیقت ہوگا۔

 

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔