میں، میری منزل اورسوالیہ نشان ؟ – واھگ بلوچ

434

میں، میری منزل اورسوالیہ نشان ؟

تحریر: واھگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میں، میری منزل اور اس سفر میں آنے والے سوالوں کے پیچھے اپنی پوری زندگی لگا دوں، کچھ سوالوں کے جواب مل جانے کے بعد بھی ان میں ہزاروں اور سوالوں کی تخلیق کا عمل رُکتا نہیں، اور سوالوں کا انبار بڑھتا چلا جاتا ہے، اور ہر وقت اس انبار کو کم کرنے کی کوشش میں وقت گزرتا جا رہا ہے، پر ان کے مؤثر جواب اور ان پر عملی کام میں ناکام نظر آتا ہوں۔ انہی حالات میں جب میں خود کو خود سے بیان کرنے لگ جاتا ہوں تو مجھے اپنی کمزوریاں، کوتاہیاں واضح دکھائی دیتیں ہیں، انکو دور کرنے کا احساس بھی آرام و سکون چین لیتی ہیں۔ اسی بے چینی میں کبھی عملاً کچھ کرنے کی ناکام کوشش بھی کرتا ہوں، جس کو کرنے کے بعد پتہ چل جاتا ہے، یہ وہ عمل نہیں جو مجھے میرے مخصوص منزل تک لے جائے، شاید ہی یہ منزل کی طرف جانے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہو، پر وقت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یا ایسا ہوتا ہے کہ جس کو میں منزل تک پہنچنے کا ایک ذریعہ سمجھ کے عملی کام کرنے لگا یہ تو منزل سے بیگانہ کرنے والاسراب ہے۔ پھر میں مایوسی کو قریب پا کر تھکن، سستی، میرے بس کی بات نہیں، باقی سب کر رہے ہیں مجھ ایک کے نہ کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا، جیسے فضول ، احمقانہ، سست بہانوں کی زد میں علم اور عمل کا گلا گھونٹ دیتا ہوں۔ کیامیں سستی اور کاہلی کے سب سے نچلے درجے پر ہوں؟ کیا صرف سوالوں کا انبار بڑھانے سے، اپنے احساسات کو قتل کرکے منزل کو صرف سوچ تک محدود کرکے ہی زندگی اپنی آخری سانس پچھتاؤ کی گود میں لے گی؟

میں تو اتنا کمزور ہوں کہ ان احساسات کو دفن کرنے کا ہنر بھی نہیں آتا۔ بیرونی طاقتوں میں اتنی طاقت ہے کہ ان کو اپنے اندرونی معاملات سے بے دخل نہیں کر پا رہا۔ میں تو اتنا غصے میں ہوں کہ اگر بس میں ہوتا تو ان سوالوں کی تخلیق ہی روک لیتا، یا ایسا ہو کہ ہر سوال کی تخلیق پر اس کا جواب ڈھونڈ نا شروع کرتا، اس کا جواب پا کر اس کو عملی جامہ پہناکر اس سفر کو آسان بناتا۔ کیا میری کمزوریوں، کوتاہیوں کو ختم کرنے والا علم نہیں؟ کیا سوالوں کی تخلیق کا ذمہ دار صرف بیرونی طاقتیں ہیں؟

انہی کشمکش میں وقت گذرتا جا رہا ہے اور میرے ہاتھ سوالوں کے بڑھتے ہوئے ا انبار کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آ رہا۔ میری کمزوری کی انتہا کہ میں اپنے اندر اس ڈر کا مادہ نہیں ختم کر پا رہا جو ہر سوال کو اوڑھے تخلیقِ پذیرہوتا ہے، اس میں سے سب سے بڑا ڈر یہ کہ کیا میں صحیح سمت میں جا رہا ہوں؟ کیا یہ منزل کو جانے کا ایک چھوٹا سا عنصر ہو سکتا ہے؟ کہیں یہ بیگانہ تو نہیں کر رہا مجھے؟ کیا اس سے نقصان بڑھ جائے گا؟

ان سوالوں میں لاچاری اور کمزوری جیسے بہانوں کی زد میں پڑا سڑ رہا ہوں، اور اپنا کردار ادا کئے بغیر وقت کو ہاتھوں سے نکلتا دیکھ رہا ہوں۔ کیا تا حیات انہی کمزوریوں، لاچاریوں اور سب سے زیادہ ان بہانوں کی زنجیروں میں قید رہوں گا؟ کیا علم اتنا محدود ہے کہ میری کمزوریوں، لاچاریوں، بہانوں کی قید سے مجھے آزاد کر دے؟ یا اپنا کردار واضح کرکے اس کو سمجھ کر نبھانے کی کمزوری مجھ میں ہی ہے؟ لیکن مجھے اس وقت اپنا مؤثرکردار واضح کرنے میں دشواریوں کا سامنا ہے،اس کو واضح کرنے کیلئے میں اپنی بساط کے مطابق پڑھتا ہوں غور کرتا ہوں، لیکن افسوس اس evolution اور revolution کے phenomenaمیں سب بہانوں کو لیکر اسی موڑ پر بے بس کھڑا تماشا دیکھ رہا ہوں۔ میں ایک ادنیٰ سا برائے نام علم کا طلبگار ہوں جو اپنی کمزوریوں کے تنگ گھیرے میں ہے، وہ کسی پر کیا تنقید کرے ، میں تو اپنے کردار کو واضح کرکے عملاً کچھ کرنے کی دگ و دو میں کوتاہیوں کا شکار ہوں، میں کہاں کسی کے کردار پر انگلی اٹھاؤں؟ مجھ بے علم کو یہ بھی واضح نہیں کہ میں بلوچ قوم کے عوام کے ساتھ کھڑا ہو جاؤں، جس کے پاس اپنے ہی زمین پر زندہ رہنے کیلئے زندگی کی بنیادی ضرورتیں نہیں جو ہر بار بلی کا بکرا بن جاتے ہیں یا پھر اس مسلح جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ اپنا کردار نبھاؤں جنہوں نے فدائی ریحان جان کی قربانی سے بھی دریخ نہیں کیا، میں اتنا بے علم کہ ریحان جان کی سوچ کو بھی نہیں سوچ پا رہا۔ یا پھر میں صرف لکھنے کو اپنا کردار سمجھ کر اس پر کام کروں؟ پھر سوچ پر سوالوں کے انبار کی سیاہ بادل چھا جاتا ہے کہ لکھوں تو کس پر لکھوں کیا لکھوں؟ بلوچ قوم کے دکھ درد، انکی بے بسی، لاچاری پر لکھوں؟ مفاد پرستوں کو بے نقاب کروں جن سے بلوچ قوم دور رہ کر ایندھن کے طور پر استعمال ہونے سے بچ جائے؟ بلوچ قوم کی نسل کشی پر لکھوں؟ بلوچوں کو اپنے ہی سر زمین سے بے دخل کرنے پر لکھوں؟ بلوچستان کی جغرافیہ پر لکھوں؟ یا جنگی وسائل اور جغرافیائی بنیاد پر بلوچ مسلح جنگ میں بہتر اور مؤثر حکمتِ عملیوں پر لکھوں؟ مسلح تنظیموں میں اداروں کی تشکیل پر لکھوں؟ یا پھر ان کو یکجا کرنے کے حوالے سے لکھوں؟ ایک آزادی پسند قومی و سیاسی تنظیم کو بہتر بنانے پر لکھوں یا پھر ان کا بلوچ قوم کے ساتھ ربط و وابستگی لکھوں یا بین الاقوامی سطح پر انکی بہتر سے بہتر کارکردگی پر لکھوں؟

برائے نام قومی سیاست کرنے والوں پر لکھوں یا ایک غیر فطری ریاست پاکستان، بین الاقوامی سازشوں کی بدولت وجود میں لائی جاتی ہے اور جسے ہر دور میں برطانیہ سے لیکر امریکہ ، چین اور روس اپنے اپنے مفادات کیلئے بے دریغ استعمال کرتے آ رہے ہیں اور آگے بھی استعمال کرتے رہیں گے، جس کا تباہ ہونا ہی اس regionمیں امن و خوشحالی کا ضامن ہو سکتا ہے، جو اپنی مذموم ارادوں میں تیزی سے کام جاری رکھے ہوئے ہیں، کیا میں اس پر لکھوں؟

یا پھر اس امریکہ پر لکھوں جو شروع دن سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے پاکستان کو فنڈز کے ساتھ ساتھ جنگی سامان فراہم کرتا آ رہا ہے جو ہر دور میں بلوچ قوم پر استعمال ہوتے آ رہے ہیں۔ میں اس پر لکھوں کہ چین برائے نام اس کولڈ وار میں معیشت میں آگے نکلنے اور سپر پاور ہونے کی دوڑ میں دوسرے قوموں کے ساتھ ساتھ اب پاکستان سے مل کر بلوچ قوم کا استحصال کر رہا ہے؟ یا اس پر لکھوں کہ بلوچستان کے ہمسایہ ملک بلوچ قوم کی آزادی کی تحریک میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں ، نقصان دے رہے یا فائدہ؟ یا اس پر لکھوں کہ افغانستان کا استحکام بلوچ آزادی تحریک کیلئے کتنا مؤثر ہو سکتا ہے جس میں طالبان کی شکل میں مختلف ریاستوں کا گیم چل رہا ہے، جس کی پشت پناہی پاکستان کے ساتھ ساتھ چین ، روس اور ایران بھی کر رہے ہیں۔

میں اس پر لکھوں کہ جنداللہ کے مقاصد کیا ہیں؟ وہ بلوچوں کی مذہبی تنظیم ہے یا قومی؟ اس پر لکھوں کہ امریکہ کا افغانستان میں انخلاء کے بعد کیا ہونا ہے؟ یا اس پر کہ بلیک واٹر جیسی تنظیم کو افغانستان کی جنگ کا ٹھکیدار بنانے کے بعد بلوچ قومی تحریک پر کیا اثرات ہونگے؟ پاکستان اور انڈیا کی کشمیر کے تٖضادات اور اس پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بلوچ تحریک کے استعمال پر لکھوں؟ بلوچ قومی تحریک سے انڈیا کے مفادات لکھوں جو ایران چاہ بہار میں سرمایہ کاری کر رہا ہے انڈیا کا ایران چاہ بہار اور افغانستان میں سرمایہ کاری اور اس پر بلوچ قومی تحریک کے مفادات کے ساتھ ساتھ انڈیا، افغانستان اور ایران کے مفادات پر لکھوں؟ میں بلوچ قومی تحریک کے تناظر میں سندھی قومی تحریک کا کردار واضح کروں یا پھر پشتون قومیت پر لکھوں؟

یا اس پر لکھوں کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے مفاد پرست سیاستدان ، پاکستان کی بنائی ہوئی استحصالی طرزِ سیاست کے سانچے میں ڈھل کر بلوچ قوم کا استحصال کر نے میں لگے ہیں۔ میں اس پر لکھوں کہ بلوچ قوم کی نسل کشی ، بلوچ عورتوں بچوں پر تشدد ، زیادتی ، مسخ شدہ لاشوں ، اجتماعی قبروں ، ماورائے عدالت اغوا پر لکھوں یا پھر روزانہ کی بنیا د پر مختلف بیماریوں سے مرنے والوں، کینسر سے مرنے والوں، یامزدوروں کی موت یا پھر CPECروڑ پر سینکڑوں جانوں کی ضیا ع اور انکے وجوہات پر لکھوں؟میں بلوچستان میں ٹیچرز، وکلاء، ڈاکٹرز، صحافی، طلباء، ماہی گیر ، مزدورں کی بد ترین حالت کی وجہ سے اپنی جائز اور بنیادی حقوق کی خاطر ہڑتال پر ہیں ان پر لکھوں؟ یا پھر اس پر بلوچ قومی تحریک کا عوامی تحریک میں تبدیلی پر لکھوں؟ بلوچ طلباء کے کردار پر لکھوں یا پھر بلوچ استادوں کی تحقیقی کونسلنگ کو چھوڑ کر CSS اور PCSاور مراعاتی کونسلنگ پر لکھوں؟

ان سب میں ربط ڈھونڈنے اور بنائے رکھنے پر لکھوں جس کے بغیر منزل کو پانا ممکن نہیں؟ یا ان سب واقعات، حالات میں ربط قائم کرنے کی دشوارویوں پر لکھوں؟

پھر آخر وہی کمزوریاں ، کوتاہیاں اور سستی مجھ پر حاوی ہوتی ہیں، جس سے اس جیسے کئی سوالات کے جواب نہیں ڈھونڈ پاتا ، اور پھر کہتا ہوں مجھ میں تحقیقی سوچ اور ہنر ہو تو لکھوں، ان سوالوں کے جواب ہو تو لکھوں؟ ان حالات ، واقعات کے درمیان ربط کا پتہ ہو تو لکھوں؟

مجھے ڈر ہے کہ کہیں میرا وجود صرف ایک ادھوری منزل اور سوالیہ نشان (؟) چھوڑ نہ جائے، اگر میری کمزرویاں، کوتاہیاں، اور بہانے ایسے ہی چلتے رہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔