میرا استاد میری زندگی ۔ ابراہیم بلوچ

1302

میرا استاد میری زندگی

تحریر۔ ابراہیم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

5 اکتوبر دنیا بھر میں استادوں کے عالمی دن کے مناسبت سے منایا جاتا ہے. جسمیں لوگ اپنے استادوں کو کسی نا کسی طریقے سے خراج تحسین و خراج عقیدت پیش کرتے ہیں. ہر ایک کا منفرد انداز ہوتا ہے خراج تحسین پیش کرنے کا اور ہر ایک کے استاد کا امتیاز بھی دوسرے سے الگ ہوتا ہے۔

کوئی والد کو استاد مانتا ہے، تو کوئی ماں کو، اسی طرح کوئی اپنی بہن کو، تو کوئی بھاہی کو استاد سمجھتا ہے. کسی کا استاد اسکا بہترین دوست ہوتا ہے، تو کسی کا اسکا کٹر دشمن۔ کسی کے لیۓ استاد وہی ہوتا جس سے اسنے کتابیں پڑھے ہوئے ہو، تو کسی کا استاد وہی کتاب ہوتا ہے۔

غرض استاد کے مختلف چہرے اور مختلف پہلو ہوتے ہیں. ہر انسان کےاستاد کا شکل و ہیت دوسرے سے مختلف ہوتا ہے. لیکن مطلب, معنی اور تعارف استاد کا ایک ہی ہوتا ہے۔

سب کے لیئے (تقریباً) استاد وہی ہوتا ہے، جس نے کچھ نہ کچھ غیرمعمولی سکھایا ہو. غیر معمولی سے مراد ایسا یا ایسے سبق اس استاد نے دیئے ہوں کہ اس سے سیکھنے والے کی زندگی کا بالکل زاویہ بدل گیا ہو۔

یقیناً استاد کہلانے کا لائق بھی وہی ہوتا ہے، جو آپکے زندگی گزارنے کے طور طریقوں پر اپنا ایک موثر اثر رکھے. ایسا اثر جس سے آپکے زندگی میں ایک موثر تبدیلی آئے. ایسی تبدیلی جس سےآپ ذہنی و جسمانی طور پر مطمئین ہوں (کوئی فرق نہیں پڑتا وہ دوسرے لوگوں کے حساب سے کتنا کٹھن اور ذہنی تشدد سے بھرا ہوا ہو). ایسی اطمینان جسمیں آپکو سکون ہی سکون اور قرار ہی قرار ہی ملے. ایسا قرار و سکون جو آپ کے دنوں کو مسکراہٹ و خوشیوں سے مزین کردے. ایسی خوشی جس کی روشنی کسی بھی غم و ویل سے مدہم نہ پڑے.ایسی خوشی جو آپ کے کامیابی کا واحد ذریعہ بنے، جسمیں ناکامی کا دور دور تک کوئی نام و نشان تک نہ ہو. ایسی کامیابی جو آپکو اپنے ذات میں دنیا کا بہترین اور کارآمد فرد بنائے. ایسا فرد جسکے خداد صلاحیتوں اور راج کی بہبود و آزادی و خوشحالی کے لیۓ ناقابل فراموش ستائشوں اور قربانیوں کا گن اسکی راج بشمول دوسرے اقوام رہتی دنیا تک گائیں. استاد کی تعریف تو ختم ہو نہیں سکتی، اس پر اگر کوئی کتاب لکھنا چاہے تو وہ کتاب تا قیامت ختم نہ ہو. بہر حال میں اپنے استاد کا تعریف فالحال اتنے تک ہی محدود کرونگا گوکہ وہ لامحدود ہے۔

اگر آپکا استاد واقعی میں استاد ہے تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کے اسنے وہ تمام چیزیں تمھیں سکھائیں, سمجھائیں اور بتائیں ہیں، جو ایک بہترین استاد اپنے شاگرد کو بتاتا ہے، سمجھاتا ہے اور سکھتا ہے. چونکہ انسان غلطی کا پتلا ہوتا ہے. سمجھ کے بھی نا سمجھ بنتا ہے, سیکھ کے بھی نہیں سیکھ پاتا کبھی کبھار تو استاد لگاتار اپنے شاگرد کو سمجھاتا اور سکھاتا رہتا ہے۔

میرے استاد نے میرے تینوں آنکھیں کھول دیں ہیں. وہ میرے وطن سے میری محبت کو ہمیشہ پروان چڑھاتا رہتا ہے. وہ بہے ہوۓ اور جمے ہوۓ خون سے سینچے ہوۓ گواڑخ کی خوشبو محسوس کراتا ہے. وہ خاک، خون اور سفید خون میں مجھے فرق کراتا ہے. وہ مجھے میرے دشت, صحرا, جنگل, دریا, چشمہ, چکل, کوہ و تلار کی اہمیت سے روشناس کراتا رہتا ہے. وہ میری پہچان چلتن بولان, آماچ کاہان, نوشکل مکران بلکہ پورے بلوچستان سے کراتا رہتاہے. وہ مجھے میرا ڈیھ و ہنکین بھولنے نہیں دیتا ہے. اسنے میرے زخموں کی دوا اور میرے آنکھوں کی ٹھنڈک میرے وطن کی مٹی میں رکھی ہیں. وہ میرے خوابوں کی زمین کو اپنے مہر و سنگتی کے بادلوں سے سیرآب کرکے خوشحال کرتا ہے۔

میرا استاد علم کو اپنے عمل سے جوڑنا سکھاتا ہے. وہ خودی کو خود سے جوڑنے کی ترغیب دیتا ہے. وہ میرے آنے والے آشوب کی ہکل کو دنیا سے واقف کرانے کی تعلیم دیتا ہے. وہ مجھے میرے حال, ماضی اور مستقبل کا سبق آموز سبق دیتا ہے. وہ مجھے حق و باطل, جھوٹ و سچ, مکر و خلوص, وفادار و غدار, ظالم و مظلوم, امیر و غریب,واعظ و بےوقوف, جاہل و عالم کےفرق سےہمکنار کراتا ہے. وہ مجھے میری حیثیت و اہمیت بتاتاہے. وہ مجھے سکھاتا ہے کہ کیسے زہر سے بھی بڑھ کر تلخ یادوں, اذیتوں اور محبتوں کو شہد سے بھی زیادہ میٹھا بنایا جاتا ہے. وہ مجھے رو کر بھی مسکرانا, ہار کر بھی جیتنا سکھاتا ہے. وہ مجھے مہر و محبت, امن و آشتی, اتحاد و یکجہتی سے رہنا سکھاتا ہے. وہ میرے شخصیت کو مہذب اور تہذیب یافتہ بناکر خوبصورت ترین شخصیت بناتا ہے۔

مختصراً میری زندگی کو واقعی میں زندگی بناکر زندگانی کی زیور سے آراستہ کرتا ہے۔ جسکے لیئے میں اپنے استاد، مرشد، سائیں، زندگی کا تاحیات ممنون و مشکور رہونگا۔ اور میں امید کرتا ہوں آپ کا استاد بھی آپ کوکچھ ایسا ہی سکھاتا, سمجھاتا اور بتاتا ہوگا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔