افغان حکام اور علماء نے جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق سے طالبان کے مختلف گروہوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست کردی۔
دارالعلوم حقانیہ سے جاری ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق افغان حکومتی حکام، علماء، پاکستان میں افغان سفیر اور دارالعلوم حقانیہ کے سابقہ طالبِ علموں پر مشتمل ایک وفد نے مولانا سمیع الحق سے ملاقات کی۔
مذکورہ مدرسے میں ہونے والی ملاقات تقریباً ڈھائی گھنٹے جاری رہے جس میں افغانستان سے متعلق امور زیرِ بحث آئے۔
افغان وفد نے جے یو آئی (س) کے سربراہ سے اپیل کی کہ وہ طالبان کے مختلف گروہوں کے درمیان ثالث کا کردار ادا کریں کیونکہ وہ انہیں (مولانا سمیع الحق کو) اپنا راہنما تصور کرتے ہیں۔
وفد کی جانب سے مولانا سمیع الحق کو یقین دلایا گیا کہ افغانستان میں مفاہمت کے عمل میں وہ ان کے فیصلے کو قبول کریں گے۔
اس موقع پر جے یو آئی (س) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ افغان مسئلہ بہت زیادہ پیچیدہ ہے اور اس کا حل ان کے لیے آسان کام نہیں ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میری دلی خواہش ہے کہ افغان جہاد اپنے منطقی انجام یعنی ملک کی آزادی اور اسلام کی حکمرانی تک پہنچ جائے اور یہ باہمی خون خرابہ بند ہوجائے۔
مولانا سمیع الحق نے افغان وفد کو تجویز دی کہ وہ ابتدا میں ملک کے مخلص علماء اور افغان طالبان کے درمیان ایک ملاقات کا خفیہ مقام پر انتظام کریں جس میں امریکا اور پاکستان کی مداخلت نہ ہو، تاکہ یہ دونوں ہی ایک دوسرے کے بنیادی مقاصد کو سمجھ سکیں۔
جے یو آئی (س) کے سربراہ نے واضح کیا کہ ایک مرتبہ دونوں جانب سے بنیادی مسئلے پر رضامندی ہوجائے تو پھر افغانستان کی آزادی اور نیٹو فورسز کے انخلا کا مطالبہ کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تمام افغان گروہوں کو چاہیے کہ وہ ایک جگہ بیٹھ کر پورے ملک کے لیے ایک نظام وضع کریں جو افغان عوام کے لیے قابلِ قبول ہو۔