معاشرہ اور غلامانہ سماج
جلال بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
لفظ معاشرہ بذات خود انسانی ذہنیت کی طرف اشارہ دیتا ہے اب دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت یہ ہے معاشرہ کیا ہے۔ کسی جگہ رہنا طور طریقے رہن سہن لفظ معاشرے کی نمائندگی کرتے ہیں۔
بلوچ معاشرے کی بات کی جائے تو اس بات میں ہمیں کوئی شرم محسوس نہیں کرنا چاہیے کہ ہم ایک جاہلانہ معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیونکہ ہم ایک غلام قوم سے تعلق رکھتے ہیں اور بلخصوص مذہبی رحجانات ہمارے ذہنوں میں ٹھونسے گئے ہیں۔ جو ہمیں غلامی کی دلدلوں میں مزید پھنسا رہے ہیں جس سے معاشرے میں بڑا اثر پڑ چکا ہے اور اس میں غلام قوم باخوشی و راضی و مطمئن کن طریقے سے خود کو دھنستے جارہے ہیں۔
ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ ہمارا معاشرہ ایسا ہے ویسا ہے مگر معاشرے کی خرابیوں سے سب خود کو نا آشنا رکھتے ہیں اور آنکھیں بند کر کے اپنے آپ کو مطمئن کرتے ہیں کہ میرے ساتھ کچھ نہیں ہورہا تو بھلا میں کیوں اپنے کو کسی دلدل میں پھنسا دوں۔ مگر کسی کو کچھ بھی یہ علم نہیں آج یہ کسی اور کے ساتھ ضرور ہوا ہے مگر کل میرے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔
معاشرتی سب سے بڑی بیماری ہی یہی ہے، ہر چھوٹے بڑے مسئلے سے ناواقف ہونا لیکن ہم سب سے زیادہ اسی بیماری میں مبتلا ہیں۔ ہر کوئی اپنے جھونپڑی میں خوش ہے چاہے آس پاس جو بھی ہو باڑ میں جائے۔
معاشرے کی گندگی کا اندازہ اس غور و تحقیق سے لگا سکتے ہیں کہ ہر کام خود کیلئے بہتر سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا میرے فائدے کے ساتھ دوسروں کے ان اعمال سے کتنا نقصان اٹھانا پڑتا ہے مگر اکثر ان معاملات میں جاہلانہ رویئے اپنائے جاتے ہیں جو ہر طرح سے معاشرے کیلئے منفی رحجانات پیدا کرتے ہیں۔
معاشرے کی منافقت..!
اگر کوئی شخص کسی عورت سے عشق ، محبت، پیار، یاکہ حوس کے تعلقات رکھتا ہے تو مذکورہ شخص ان تمام اعمال سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ عورت غیر ہوتی ہے ۔ مگر وہ شخص اس وقت اندھے پن کا شکار ہوکر جو جی چاہتا اس عورت سے کرنے کیلئے ہر غیر ضروری رشتے بنانے میں جی جان لگا دیتا ہے۔ حالانکہ وہ عورت کسی کی بہن ، بیوی بھی تو ہے۔ اس غیر ہونے کی وجہ سے وہ شخص مختلف تعلقات رکھنے پر اس عورت کو آمادہ کرتا ہے۔
مگر جب کوئی اور اس کے ماں، بہن، بیوی حتی کہ کوئی رشتہ دار کیوں نا ہو بری نظروں سے دیکھ بھی لے اس مذکورہ شخص کو گوارہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ اب معاملہ اس کی عزت کا ہوتا ہے ۔ جو اس کے خاندان کے اوپر آچکا ہے یہ وہی شخص ہے جو خود ایسے معاملوں میں ملوث رہا ہے مگر جب بات اپنے ماں، بہن کی آتی ہے تو عزت، غیرت ، ننگ و ناموس یاد آتا ہے۔ جب تم خود وہی جرم کر رہے ہو تو تمہیں کچھ بھی کسی عزت، غیرت ، ننگ و ناموس کی پرواہ نہ تھی۔ جب مسئلہ تمہارے گھر تک آ پہنچتا ہے تو تم عزت دار، تم غیرت مند، کیا دوسرے عزت دار نہیں ہوتے؟ کیا دوسرے کسی کی ماں، بہن نہیں ہوتے ہیں؟
کیا خواہشات کا لبادہ صرف تمہیں پہنایا گیا ہے؟
اگر ہاں تو خود چیختے چلاتے کیوں ہو؟ عزت سب کو اپنی عزیز ہوتی ہے مگر تمہارا کتا، کتا ۔ ہمارا کتا ٹومی۔ یہ چاہے جہاں بھی ہو نا انصافی ہی کہلاتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔