عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایک ماڈل کے قتل کے بعد سابق مس عراق شیما قاسم کا کہنا ہے کہ انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
سابق مس عراق شیما قاسم نے خود کو ملنے والی دھمکیوں کے بارے میں آن لائن لائیو ویڈیو براڈکاسٹ میں بتایا اور کہا کہ انھیں پیغام دیا گیا ہے کہ ماڈل کے بعد اگلی باری ان کی ہے۔
واضح رہے کہ بغداد میں جمعرات کو ماڈل تارا فریس کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔ تارا فریس کے انسٹاگرام پر 28 لاکھ فالوورز تھے۔
تارا فریس کے مرنے کی خبر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک خاتون سماجی کارکن سعود العلی کی موت کے دو دن بعد سامنے آئی ہے۔ سعود العلی کو عراق کے شہر بصرہ کے معروف علاقے میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔
اس سے قبل اگست میں بغداد میں دو بیوٹی سیلون کی مالکان راشع الحسن اور رفیع الیسری کو ان کے گھروں میں ’پر اسرار حالات‘ میں قتل کر دیا گیا تھا۔
ان دونوں خواتین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے تارا فریس کے ساتھ روابط تھے۔
اگرچہ ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ ان ہلاکتوں کا کوئی آپس میں تعلق ہے یا نہیں تاہم عراق کے وزیر اعظم حیدر العابدی کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ’یہ قتل ایک منصوبے کے تحت ہو رہے ہیں۔‘ انھوں نے اس حوالے سے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
شیما قاسم کے انسٹاگرام پر 27 لاکھ فالوورز ہیں۔ انھوں نے ہفتے کو لائیو ویڈیو میں پرنم آنکھوں کے ساتھ کہا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور ان کو دھمکیاں مل رہی ہیں کہ ’اگلا نشانہ تم ہو‘۔
انھوں نے کہا کہ جن خواتین نے عراق میں اپنے بل بوتے پر اپنا نام بنایا انھیں قتل کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے تارا فریس کو ’شہید‘ قرار دیا۔
22 سالہ تارا فریس کو موٹر سائیکل پر سوار دو افراد نے مرکزی بغداد میں دن دیہاڑے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔
تارا فریس گذشتہ تین سال سے کردستان کے شہر اربیل میں رہائش پذیر تھیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو وہاں زیادہ محفوظ سمجھتی تھیں تاہم وہ کبھی کبھار بغداد آیا کرتی تھیں۔
شیما قاسم نے انسٹاگرام پر تنگ کپڑوں، دل لبھانے والے ہیئر سٹائل، میک اپ اور ٹیٹوز کے ساتھ تصاویر پوسٹ کی تھیں۔
اطلاعات کے مطابق تارا فریس سوشل میڈیا پر ان کے کام کی وجہ سے دھمکیاں دی جاتی تھیں۔