فدائین بلوچ اور شعوری سطح – جلال بلوچ

268

فدائین بلوچ اور شعوری سطح

تحریر: جلال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کافی دنوں بعد ایک بار پھر لرزتے ہاتھوں، بے بس قلم کے ساتھ سسکیوں بھری احساسات لئے قلم کو درد و آہ میں بدلنے کی چھوٹی سی کوشش کا ارادہ رکھتے ہوئے، ایک ادنیٰ سی کوشش کررہا ہوں، قلم کو تاسیر اس وقت ملتی ہے جب قلم والے کے پاس احساسات موجود ہوں کیوںکہ قلم ایک بے جاں شہ ہے اور سیاہی صرف اور صرف ایک پھیکا رنگ ہوتا، اس پھیکے رنگ کو قوت بخشنا، احساسات سے آشنا ہونا لازمی ہے۔

ان سب کو جاننے، پہچاننے، محسوس کرنے کیلئے شعور کا ہونا لازم ہوتا ہے، مگر کونسا شعور؟ ایک ایسا شعور جو صرف تمہارے لئے نہ ہو، ایک ایسا شعور جو اجتماعی سوچ کو فوقیت دے، ایسا شعور جو حق و صداقت کے بارے میں ہو، سچ بھی شعوری بنیادوں پر بولا جاتا ہے اور جھوٹ بھی اکثر اوقات شعوری بنیادوں پر بولا جاتا ہے۔ مگر حقیقی شعور عدل و انصاف کے اور سچ و صداقت کیلئے کارآمد ہوتا ہے۔

شعور ذہن کی پیداوار یا دماغ کی؟
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ انسانی دماغ مادی وجود ہے اور یہ نیورانز سے مل کر بنا ہوا ایک مجموعہ ہے، جس میں نیورانز یا اعصاب اپنا کام سر انجام دیتے ہیں اور عقل وشعور پیدا ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم شعور فقط انسان تک محدود سمجھتے ہیں؟ جانوروں میں پائے جانے والا ماحول کا احساس شعوری نہیں ہے؟

اگر شعور کائنات کے ہر ذرے میں پنہاں ہے تو پھر انسانی ارتقائی شعور اور کائناتی شعور میں فرق ہے؟ اسی طرح انسانی ذہن مادی ہے اور جوہری سطح پر زیر جوہری ذرات سے مل کر بنا ہے تو کیا زیری جوہری ذرات کائنات کی فورسز سے متاثر ہوتے ہیں؟

اسی طرح ایک بہت اہم عنصر یہ ہے کہ جس طرح بڑے اجسام کی حرکت کے قوانین زیری جوہری ذرات پر اطلاق نہیں ہوتے یہاں ہر جہت اور ہر درجہ پر کائنات مختلف ہے تو پھر نیورانز اور جن سے وہ نیورانز بنی ہیں یعنی کوانٹم ذرات کیسے ایک کے کام میں دوسرا دخل دے سکتا ہے۔ اس فکر سے پہلا گروہ جو ارتقاء پر یقین رکھتا ہے، درست ثابت ہو جاتا ہے۔ اب اگر ذہن اور مغز( مادہ) کو مختلف سمجھا جائے تو یہاں سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شعور کو جنم کون سی چیز دیتی ہے؟ مادہ یا ذہن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ذہن مادہ یعنی مغز ( نیورانز) کے باہمی اشتراک سے پیدا ہوتا ہے؟

کسی اختیار کیلئے یہ لازم ھوتا ھے کہ وہ اختیاری شہ ناقابل تقسیم ھو۔ کیونکہ اگر کوئی شے تقسیم ھو سکے تو وہ، وہ شے اپنے کُل میں کسی حقیقت میں رہ ہی نہیں پاتی بلکہ اپنے تقسیم کیئے گئے جزویات کی ڈائینیمکس کا ایک نتیجہ ھوتی ھے۔ کہ جس میں اگر کوئی اختیار، اگر فرض بھی کیا جائے، تو ان جزیات کا ہی کہلائے گا۔ اور ایسے میں اس کُل کا اختیار نہیں رھے گا کہ بلکہ کُل کا نظر آتا اختیار دراصل جزیات کے اختیارات کا ایک ڈائینمیک نتیجہ ھو گا۔

شعور ہے جو ہر خوشی و غم سے فراموش کردیتی ہے، جو پیار، محبت، گھربار چھوڑنے پر خوشی خوشی منوالیتی ہے۔ بلوچستان کے مختلف پہاڑوں موجود سرفروش باغیوں نے اپنے شعور کو اتنا اونچا کر رکھا ہے کہ کوئی بے شعور اس بارے میں سوچ نہیں سکتا۔ بی ایل اے کے بنائے ہوئی مجید برگیڈ فدائی کے بارے میں اکثر سنا ہے، مگر کچھ خاص توجہ دینے سے قاصر رہا ہوں۔ مجید فدائین برگیڈ کیا ہے؟ کیسے اور کب و کس لئے وجود میں آیا ہے؟

شہید درویش کے فدائین حملے اور شہادت کے فوری بعد بی ایل اے کا بنایا ہوا مجید فدائی بیرگیڈ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ سرزمین کے وارث بلوچ فرزندان اپنے وطن کے دفاع میں اپنے جان کا نظرانہ دینے سے بھی دریغ نہیں کرینگے۔ جو مجھ سمت ہر چھوٹے سوچ والے کیلئے حیرانگی کا باعث تھا۔ بہت کچھ اس فدائین برگیڈ کے بارے میں جاننے کی کوشش کی، آخر کار ایک بااعتماد دوست ملا جس سے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ فدائین برگیڈ کب اور کس لئے وجود میں آیا تھا۔

جہاں تک میں نے سنا ہے بلوچ قومی تحریک میں مجید نام کے دو سرفروش وجود رکھتے ہیں۔ ایک مجید اول اور دوسرا ایک مجید ثانی ۔۔۔۔ مجید اول وہی ہے جس نے 1973 میں پاکستانی وزیراعظم پر فدائین حملہ کیا تھا، جس سے دشمن ریاست کے وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو بال بال بچ گئے تھے اور شہید مجید اول نے بلوچ قومی آزادی کی جنگ میں یا ایسا سمجھیں بلوچ تاریخ میں پہلا فدائین حملہ کیا تھا۔ یاد رہے کہ شہید مجید اول کا تعلق بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن یعنی (بی ایس او ) سے تھا۔

اس فدائین حملے کی پلانگ بطور مظلوم و غلام قوم کی آواز کو دنیا کے سامنے احتجاج کے طور پر کیا گیا تھا۔ جس کا فیصلہ ایک تنظیمی میٹنگ کے دوران ہوا تھا، جو شہید مجید اول کے گھر ہورہا تھا۔ اس میٹنگ میں موجود ہر دوست یہی التجا کر رہا تھا کہ یہ حملہ میں کروں گا، جس سے میٹنگ کے دوران شور زیادہ ہونے کے وجہ سے آواز باہر جاچکا تھا۔ جس سے گھر میں موجود شہید مجید اول کے والد انکے سرکل مجلس میں داخل ہوتے ہوئے بولا کہ ایک میزبان ہونے کے ناطے میں ایک بات کہوں گا جس کو آپ سب کو ماننا پڑے گا۔ میں آپ کے سرکل میٹنگ میں بات کرنے کی گستاخی کیلئے معافی چاہتا ہوں لیکن میرا بولنا فرض ہے۔ اور بلوچ روایات کے مطابق آپ کو میرا بات ماننا ہوگا۔۔۔۔ یہ فدائین حملہ میرا بیٹا مجید کریگا۔

یہ سن کر سب ہکا بکا رہ گئے اور مجلس میں فیصلہ ہوا یہ فدائین حملہ مجید اول کرے گا۔ جس سے شہید مجید نے دشمن وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو پر فدائین حملہ کیا تھا۔ ہاں وہ بچ تو گئے تھے مگر تاریخ نے مجید اول کے قربانی کو نہیں بھولا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ورنا ریحان زندگی کی تمام آسائشوں کو چھوڑ کر فکر و نظریئے سے لیس شعوری طور پر دشمن پر قہر بننے کیلئے تیار ہوتا ہے۔

ریحان کون تھا؟ کیوں اور کس لئے گلزمین بلوچستان کیلئے فدا ہو چلے، کیا تھے انکے احساسات اپنے مادر وطن کیلئے کہ جان کا نظرانہ دے دیا۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں تو بدن خوف کی وجہ سے لرزنے لگتا ہے۔ کچھ پتہ نہیں آپ نے کیسے اس چھوٹے عمر میں یہ سب فیصلہ کیا، مگر میں آپ کی ہمت کو سر جھکا کر سلام پیش کرتا ہوں۔ صرف سلام پیش کرکے خود کو جھوٹی تسلی تو دے دی مگر یقین مانیں میں اندر ہی اندر شرمندگی محسوس کررہا ہوں۔ آپ کا عمل اس سے زیادہ کا حقدار ہے اور وہ تب پورا ہوگا جب آپ کے بعد ہم آپ کے چنے راستے پر چلتے آینگے۔

ریحان اپنے چھوٹے عمر میں اپنے معصومیت، احساس، جذبات کو قربان کرکے اپنی جان فنا کر چکے ہیں۔ جن کے جذبات، احساسات اور محبتیں بھی ان ہی کی طرح معصوم اور نرم و نازک ہوتی ہیں۔ وہ ہر غرض اور لالچ سے عاری، خالص اور نکھری الفتوں کے متلاشی ہوتے ہیں۔

ریحان آپ کی ہمت وبہادری نے مجھ سمت بہت سے آزادی پسندوں کو حوصلہ بخشا ہے، یہ شعور ہی کا فیصلہ ہے جو آپ کو عظیم و لیجنڈ بنا چکا ہے۔

ریحان جیسے بہادر سپوت نخلستان سے پھیلتی مہک کی مانند ہوتے ہیں، جن کی خوشبو آزادی کی ہواؤں میں تحلیل ہوکر یہ پیغام دیتی ہے کہ وہ مقصد وہ مقام کس قدر بلند ہے جس کے لیے مسکرا کر ہزاروں ریحان فنا ہوگئے، جس کے لیے مجید برگیڈ کے ساتھیوں نے یہ راہ چنا، جس پر چل کر وہ دشمن کے شکست کا سامان بنے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔