عالمی محور طاقت اور ہم بلوچ – برزکوہی

413

عالمی محور طاقت اور ہم بلوچ

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

ممکن حد تک پوری کوشش کی کہ عام زبان میں، چند صاف و شفاف اور سیدھے سادے سوالات اور عالمی محور طاقت پر اپنی آراء پیش خدمت کروں۔ جو حقیقتاً مجھ سمیت بہت سے اذہان کے سمجھ سے بالاتر ہیں، اگر ذرا بھی حقیقت پسندی کے ساتھ انصاف ہو۔

کسی کو پتہ ہے داعش کون ہے؟ کس نے بنایا ہے اور کیوں بنایا ہے؟ کون سپورٹ کررہا ہے؟ اور کس کس کے کنٹرول میں ہے؟ مصر، شام، عراق، لیبیا، یونان، یورپ، برطانیہ، سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک وغیرہ میں پر تشدد واقعات کا ذمہ دار ہے اور سرگرمیاں کررہا ہے۔ وہ آپ چھوڑ دیں، داعش افغانستان میں موجود افغان ریاست اور افغان فورسز کو بھی مار رہا ہے اور افغانستان میں موجود امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو فورسز کو بھی مارہا ہے اور افغان فورسز، امریکہ اور نیٹو کے خلاف برسرپیکار طالبان کو بھی مارہا ہے اور طالبان پھر افغان فورسز امریکہ اور نیٹو کا بھی مار رہا ہے اور افغان فورسز امریکہ اور نیٹو پھر طالبان کو ماررہے ہیں اور داعش کو بھی مار رہے ہیں۔ پھر داعش اور طالبان ملکر یا جدا جدا پاکستان کو بھی مار رہے ہیں، داعش پاکستان خاص کر بلوچستان میں مزار شریفوں، وکیلوں، ہزارہ اہل تشیع اور سراج رئیسانی جیسے پاکستانی خاص مہرے اور پاکستانی فورسز کو بھی ماررہے ہیں۔

طالبان ایک طرف پاکستان کو ماررہے ہیں، دوسرے طرف طالبان، پاکستان و آئی ایس آئی کے ایماء پر افغانستان کے بارڈر بلوچستان کے علاقے سرلٹ، نوشکی، پنچپائی، چاغی، براپچہ بارڈر پر آزادی کے ساتھ پھرتے اور گھومتے ہیں۔ ان کے باقاعدہ کیمپ ہیں، جن کو مکمل پاکستان کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ایران اور روس کا باقاعدہ افغانستان میں موجود طالبان کو مالی اور فوجی کمک کا کھل کر بات سامنے آچکا ہے، وہ طالبان جو افغان فورسز، امریکہ اور نیٹو کے خلاف برسرپیکار ہیں، دوسری طرف چین، روس اور پاکستان بھی کھل کراس طالبان کو سپورٹ کررہے ہیں جو افغان فورسز، امریکہ اور نیٹو کر ماررہے ہیں۔

پاکستان چین اور روس کا سپرپاور امریکہ کے خلاف اتحاد اور داعش ایران کو بھی مارہا ہے اور ایران کے کٹر حریف امریکہ کو افغانستان میں ماررہا ہے اور بلوچستان میں داعش ہزارہ قوم کو شیعت کی بنیاد پر مارہا ہے، سعودی عرب بھی سنی نظریئے کے بنیاد پر اہل تشیع کو مارہا ہے، سعودی عرب اور پاکستان ملکر جیش العدل کے نام پر ایران کو ماررہے ہیں اور پاکستان اور سعودی عرب بہترین حلیف کی صورت میں دونوں امریکہ کے بھی دوست ہیں اور یہ تینوں ایران کے خلاف ہیں اور پاکستان، سعودی، چین مشترکہ گوادر سی پیک کے حوالے سے ایک پیج پر ہیں۔

امریکہ چین کو قبول نہیں کرتا ہے، گوادر اور سی پیک کے حوالے سے۔ اسی طرح چابہار پورٹ کے حوالے سے ایران اور بھارت کی دوستی اور گوادر پورٹ کی منصوبہ بندی کے حوالے سے دونوں چین کو بھی قبول نہیں کرتے ہیں۔ دوسری طرف ایران بھی بلوچستان میں سنی سوچ کے لوگوں کا مارتا ہے، امریکہ اور بھارت حلیف ہوتے ہوئے امریکہ و ایران کا کٹر حریف اور بھارت کا چابہار پورٹ کے حوالے سے ایران کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں۔

پھر کیا سارے طالبان ایک ہیں؟ یا سارے داعش ایک ہیں؟ اگر جدا جدا ہیں؟ پھر کیوں سب کے سب داعش اور طالبان کے نام پر برسرپیکار ہیں؟ اور پھر کیوں سارے مذہبی سوچ کے بنیاد پر لڑرہے ہیں؟ کیا مذہبی، اسلامی سوچ یا نظریہ اس وقت پوری دنیا میں بہترین آلہ بن چکا ہے؟ جس کو ہر ایک اپنی فوجی و معاشی مفاد کے لیئے استعمال کررہا ہے؟ کیا دنیا اس وقت تیسری جنگ عظیم میں داخل نہیں ہوچکا ہے؟ وہ بھی مذہبی سوچ کی بنیاد پر؟ کیا پھر مذہبی سوچ کی شدت اور پھیلاو نیشلزم کے لیئے آئندہ خطرناک اور عذاب ثابت نہیں ہوگا؟ جب خطرناک ہوگا تو قومی ریاستوں اور قومی ریاستوں کی تشکیل میں رکاوٹ نہیں ہوگا؟ پوری دنیا میں اگر مذہبی سوچ کی بنیاد پر جنگ، ماردھاڑ، قتل و غارت گری اور شورش اسی طرح جاری و ساری رہا اور مزید شدت اختیار کرتا ہے، پھر کیا مستقبل میں یا آنے والے نسلوں پر نفسیاتی حوالے سے مذہبی سوچ کے اثرات مرتب نہیں ہونگے؟ کیا مذہبیت اور قومیت آپس میں ضد و آگ اور پانی کی مترادف نہیں ہیں؟

مختصر اور سیدھے سادھے انداز میں بیان کردہ، عالمی کھیل کے اس پورے چکرویو میں اس وقت غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے، من حیث القوم بلوچ اپنی بہترین فوجی و معاشی اور جغرافیائی اہمیت و افادیت اور دنیا کے لیے گیٹ وے کی حثیت رکھنے والی سرزمین کے مالک ہوتے ہوئے پھر بلوچ قوم اس وقت کہاں پر کھڑا ہے؟ اس وقت افغانستان کے بعد عالمی جنگوں کا آماجگاہ بلوچستان بنتا جارہا ہے؟ تو پھر بلوچ قوم کے شعور و ادراک اور قومی قوت کا سطح کہاں اور کس مقام پر ہے؟ کیا بلوچ قوم اس سارے یلغار، طوفان اور سونامی میں اپنی قومی بقاء، قومی شناخت اور ریاست کی بحالی میں کامیاب اور کامران ہوگی؟

میرے نزدیک یہ بلوچ جہد اور بلوچ قومی طاقت اور قوت پر منحصر ہے۔ کیا بلوچ قومی قوت و طاقت اس پوزیشن میں ہے یا اس پوزیشن میں ہوگا کہ سب کچھ اپنے حق میں پلٹ دے؟ یہ اب کہنا اور فیصلہ کرنا قبل ازقت ہے۔

اس کے باوجود کیا بلوچ قومی قیادت اور جہدکار اس پورے چکرویو اور عالمی کھیل سے مکمل واقف ہیں اور ادراک رکھتے ہیں؟ اور اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی حکمت عملی اور منصوبہ بندی پہلے سے کرچکے ہیں؟ یا صرف اور صرف اللہ خیر کریگا؟ تو کیا صرف اللہ خیر سے اس وقت تک دنیا میں کوئی قوم اور قومی تحریک کامیاب اور ترقی کرچکا ہے؟

اگر بلوچ قیادت سے لیکر تمام جہدکار، واقعی بلوچ قومی مفاد و کاز، قومی آزادی اور قومی تشخص کے حوالے سے سوفیصد ایماندار، مخلص اور فکرمند ہیں تو اس تمام صورتحال کو مدنظر اور ذہن میں رکھ کر سرجوڑ کر اس پر سوچنا چاہیئے اور منصوبہ بندی اور پالیسی مرتب کرنا ہوگا۔ اگر صرف افغان قوم کی طرح جنگی منافع خوری اور سستی شہرت صرف یہی مقاصد ہیں، تو مایوسی اور نا امیدی نہیں بلکہ انتہائی تکلیف دہ اور افسوس ناک عمل ہوگا۔ پھر آنے والوں نسلوں کیلئے اور تاریخ کے صفحوں میں سب کے سب انتہائی نالائق شمار ہونگے۔

محدود اور سطحی سوچوں سے سے نکل کر صرف پیروں تک نظر رکھنے کے بجائے دوراندیشی اور سیاسی بصیرت کا تقاضہ ہورہاہے، بلوچ قومی قوت اور طاقت کو نظریاتی و فکری اور شعوری بنیادوں پر استوار کرکے پہلے مکمل قومی جنگ پر توجہ اور منظم و موثر اور غیرروایتی طور طریقے سے سیاسی آواز کے ذریعے مہذب دنیا اور مہذب اقوام کی کانوں تک بلوچ قومی آواز کو پہنچانا ہوگا، تب جاکر امید کی کرنوں میں پر امیدی ہوگی۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔