لاپتہ بلوچ افراد کی بازیابی کیلئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3361 دن مکمل ہوگئے۔ اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی این پی کے کارکنان نے لاپتہ و شہداء کے لواحقین سے کرنے کیلئے کیمپ کا دورہ کیا۔
وائس فار بلوچ مسنگ فرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں انسان پر بالادستی استحصال غلامی و محکومی اور صبر، استبداد کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ بالادست قوتوں کے ظلم و جبر اور غلام و محکوم اقوام طبقات اور نسلوں میں غلامی کی بدترین زندگی کے خاتمے پر یقین کم نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ امر ظاہر کرتا ہے کہ بلوچستان اپنی تاریخی جداگانہ قومی شناخت اور آزادانہ حیثیت قطعی محروم ہونے کے باعث محض ایک نو آبادتی کالونی ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مقتدر قوتوں کی جانب بلوچ قومی شناخت کو کھلی پاکستانی فورسز کی کاروائیوں اور طاقت کے استعمال سے کچلنے میں ناکامی کے بعد اب ایک اور وحشیانہ خفیہ طریقہ اٹھاؤ مارو اور پھینکو اختیار کیا گیا ہے، جبر تشد د کا یہ طرز عمل بلوچ سیاسی رہنماؤں، کارکنوں اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ان تمام بلوچوں کو چن چن کر اغواء لاپتہ اور بدترین تشدد کے بعد شہید کرنے اور مسخ شدہ لاشوں کو ویرانے میں پھینکنے پر استوار ہے، جو بلوچ قومی شناخت سے وابستگی و ہمدردی رکھتے ہیں بالادست قوتوں کے ظلم و جبر اور غلام و محکوم بنانے میں اور جو عنصر آج بھی نہ صرف موجود ہے بلکہ انتہائی شدت اختیار کرگیا ہے ۔
ماما قدیر نے مزید کہا کہ ہمیں موت کا خوف نہیں کہ وہ کس سازش اور شکل میں آئے بلکہ بلوچ قومی تحریک کی کامیابی پر یقین اور فکری وابستگی بالادست قوتوں کو اپنی تسلط کردہ سامراجی استحصالی نظام کو برقرار رکھنے اور بلوچوں کی جدوجہد کو بزور طاقت کچلنے کی کوشش کی ناکامی کے خوف نے ان کو اندر سے کھوکھلا کردیا ہے نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنے سے غلامی سے نفرت کی تڑپ پیدا کرتی ہے اور ہزاروں نوجوانوں کا خون ضرور رنگ لائے گا ہم پھر ایک دفعہ انسانی حقوق کے نام پر سننے والی عالمی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ بلوچ قوم پر ہونے والے ریاستی دہشت گردی کا نوٹس لیں اور بلوچ نسل کشی کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔