امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ادارے سے منسلک صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی اور مبینہ قتل کے حوالے سے کہا ہے کہ امریکا کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے سعودی عرب سے ‘جواب کا مطالبہ کرے’۔
واشنگٹن پوسٹ نے اپنے اداریے میں صحافی کی گمشدگی پر جواب کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘جمال خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں تمام حقائق سامنے لانے کے لیے امریکا کو تمام کوششیں ضرور بروئے کار لانا چاہیے’۔
اخبار نے لکھا ہے کہ ‘ہم واضح جواب کا مطالبہ کررہے ہیں’۔
مزید کہا گیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ولی عہد محمد بن سلمان کو پسندیدہ اتحادی کے طور پر پیش کیا تھا اب سعودی عرب جمال خاشقجی کی گمشدگی کے حوالے سے تمام معلومات سے آگاہ کرے۔
اپنے مطالبات میں انہوں نے کہا کہ ‘اگر ولی عہد مکمل تعاون کے ساتھ جواب نہیں دیتے ہیں تو کانگریس پہلے قدم کے طور پر سعودی عرب سے تمام عسکری تعاون معطل کردے’۔
اخبار نے ترکی سے بھی مطالبہ کیا کہ ان کے پاس جمال خاشقجی کے مبینہ قتل کے بارے میں جو معلومات ہیں اس کو جاری کردیں اور اس حوالے سے تفتیش میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔
امریکی اخبار کا کہنا تھا کہ سعودی عرب استنبول جانے والے 15 عہدیداروں کے بارے میں بھی وضاحت کرے جو جمال خاشقجی کی موجودگی میں قونصل خانے میں موجود تھے۔
صحافی کی بخیر واپسی کی امید ظاہر کرتے ہوئے اخبار نے کہا ہے کہ ‘ہمیں امید ہے کہ جمال خاشقجی کو کوئی نقصان نہیں ہوا ہوگا اور وہ بخیریت واپس آئیں گے’۔
پوسٹ نے مزید کہا ہے کہ ‘اگر ان کے قتل کی رپورٹس حقیقت ہوئیں تو افسوس کے ساتھ ساتھ ان کے قاتلوں اور قتل کا حکم دینے والوں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے’۔
خیال رہے کہ واشنگٹن پوسٹ سے منسلک سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ہفتے ترکی میں سعودی قونصل خانے سے لاپتہ ہوگئے تھے جس کےبعد ترک پولیس نے خدشہ ظاہر کیا تھا انہیں سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا ہے۔
جمال خاشقجی کو سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے پر ایک برس قبل خودساختہ جلاوطنی اختیار کرکے امریکا منتقل ہونا پڑا تھا۔
جمال خاشقجی کی منگیتر کے مطابق وہ استنبول میں قائم سعودی سفارتخانے میں داخل ہوئے تھے اور اس کے بعد سے انہیں کسی نے نہیں دیکھا اور نہ ہی ان سے متعلق کوئی اطلاعات موصول ہوئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم دستاویزات کے سلسلے میں سعودی سفارت خانے گئے تھے لیکن مجھے جمال کے ہمراہ اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور ان کا موبائل بھی باہر ہی رکھوا لیا گیا تھا۔
دوسری جانب سعودی عرب نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ صحافی سعودی شہری تھے اس لیے انہیں بھی معلومات درکار ہیں۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے امریکی ویب سائٹ کو انٹرویو میں کہا تھا کہ جمال سعودی شہری تھے، ہمیں بھی ان کی گمشدگی کے حوالے سے تفصیلات نہیں معلوم لیکن ہم اس حوالے سے حقیقت جاننا چاہتے ہیں۔
انہوں نے اپنے انٹرویو کے دوران ترک حکومت کے موقف کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ترک حکام اگر چاہیں تو ہمارے سفارت خانے کا جائزہ لیں حالانکہ سفارت خانہ ہماری خود مختاری کی حدود میں شامل ہے۔