زندگی کی تلاش میں
ذاکر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اس مفاد پرست دنیا میں انسان دکھ و تکلیف سے گذر کر ہی انسانیت کی منزل کو پہنچ سکتا ہے۔ بغیر دکھ و تکلیف کے انسانیت کی منزل تک پہنچنے کا خواب دیوانے ہی دیکھا کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر اگر بلوچستان کی صورتحال کا تجزیہ کریں تو ان تمام حالات میں ہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ بلوچستان کے نوجوان حقیقی زندگی کی تلاش میں سر گرداں ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہر دکھ و تکلیف کو خندہ پیشانی سے قبول کررہے ہیں۔ انہی نوجوانوں میں ایک نوجوان شبیر عرف لکمیر بلوچ ہے جنہوں نے کم عمری میں بی ایس او کے پلیٹ فارم سے پر امن سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا اور اپنے سیاسی جدوجہد کے چندسالوں میں دیگر نوجونوں کی طرح ریاستی عتاب کا شکار ہوگیا۔
لکمیر بلوچ کے لئے میں کیا لکھوں شاید میرے الفاظ اس نوجوان کے کردار کو صحیح پیش نہ کرسکیں کیونکہ لکمیر کا تعلق نوجوانوں کے ان قبیل سے تھا جو قربانی دینے کا فن بخوبی جانتے تھے، وہ ان نوجوانوں میں شامل تھے جو ہمیشہ تخلیق و تحقیق کی جانب راغب رہتے اور ہر وقت کچھ نیا کرنے کی چاہت اس نوجوان کی خاص صلاحیت تھی۔ اس لیئے ایک ایسی زندگی کی تلاش میں اس نے کم عمری میں ہی عہد کیا کہ وہ اپنے قوم کے لئے ایک ایسی زندگی چاہتا ہے جن کو وہاں کوئی دکھ اور تکلیف نہ ہو، کوئی ان سے آقا و غلام جیسا سلوک نہ کرے اور اس راہ میں وہ ہمیشہ ثابت قدم رہا۔ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اسکے قدم نہیں ڈگمگائے بلکہ مشکلات اور تکالیف نے اسے کم عمری میں ہی ایک مضبوط انسان بنا دیا تھا اور ہر تکلیف کو برداشت کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ایک شعوری نوجوان تھا۔ لکمیر بلوچ ہو یا بی ایس او آزاد کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرنے والے دیگر نوجوان سب علم دوست اور انسان دوستی کے جذبے سے سرشار تھے جنکی زندگی کا مقصد ایک نئی دنیا کا حصول تھا اور وہ تھا آزاد بلوچ ریاست جہاں تمام بلوچ ایک قومی وحدت میں متحد ہو کر خوشحال زندگی اپنی مرضی سے گذار سکیں۔
جب نودان بلوچ، عزت بلوچ اور چراغ بلوچ کو لاپتہ کیا گیا تو لکمیر بلوچ سخت پریشانی میں مبتلا ہوا ہوگا کیونکہ ٹاپ لیڈر شپ کی گرفتاری وقتی طور پر تنظیم کو دو قدم پیچھے کی طرف دھکیل دیتی ہیں اور جب انکی ملاقات ٹارچر سیل میں ہوئی ہوگی تو ضرور لکمیر تنظیم کے بارے میں سوچ کر سخت پریشان ہوا ہوگا لیکن جب اسے بی ایس او آزاد کے کامیاب کونسل سیشن کے انعقاد کاپتہ چلا ہوگا تو وہ خوشی کے مارے پھولے نہ سمایا ہوگا کہ بی ایس او آزاد میں اب بھی ایسے نوجوان موجود ہیں جو شہدا اور اسیر لیڈران کے مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا جذبہ و قابلیت رکھتے ہیں۔
شبیر بلوچ و بی ایس کے تمام اسیر رہنماء جو ریاست کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بلوچ سماج میں سیاسی شعور پھیلانے میں اہم کردار ادا کررہے تھے، جن کا وجود خود ریاست کے لئے خطرے کی علامت تھی، ایسے نوجوان ہر مقام پر ریاستوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوتے۔ اس لیئے انہیں ایک رکاوٹ سمجھ کر اپنے راستے سے ہٹایا جاتا ہے اور زندانوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد کسی جنگل میں انکی لاشوں کو پھینک دیا جاتا ہے، لیکن یہ استحصالی طاقتیں شاید اس حقیقت سے آشنا نہیں کہ ظلم بڑھنے کے بعد شعور میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور ان نوجوانوں کی قربانی نے بلوچ عوام میں قربانی کا جذبہ بیدار کیا ہے۔ آج بلوچ قومی تحریک سے منسلک نوجوان انہی راہوں کے مسافر ہیں جن پر زاہد جان، ذاکر جان،عزت جان شبیر اور دیگر نوجوانوں نے اپنی تمام زندگی وقف کردی اور آج انکے نقش قدم پر چلنے کے لیے بلوچ عوام کا ہر فرزند تیار ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔