حیربیار مری کے دوستوں سے کچھ سوالات – کوہ کرد بلوچ

395

حیربیار مری کے دوستوں سے کچھ سوالات

کوہ کرد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سنگتوں کی جانب سے کچھ ایسی تحریریں دیکھنے کو مل رہے ہیں، جہاں وہ اتحاد و یکجہتی کی بات کرتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں جبکہ اس بات پر کوئی دورائے نہیں کہ بلوچ قوم کو اس وقت اتحاد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کیونکہ ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں کہ ہمارے پاس وقت بھی کم ہے اور ہمارے مشکلات اور دشمن بھی روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس لیئے قومی طاقت کو اتحاد کرنی چائیے لیکن اتحاد کی حیثیت کیا ہے اور وہ کس اتحاد کی بات کر رہے ہیں، وہ سنگت جو پچھلے آٹھ سالوں سے مسلسل انہی تنظیموں کو گالم گلوچ، غدار، قوم دشمن، پراکسی، شدت پسندوں کو سپورٹ کرنے کے الزامات لگاتے آرہے ہیں ایک دم سے ان قوم دشمنوں سے اتحاد کیسے ممکن ہے۔ بقول اُن کے بی ایس او، بی این ایم، بی ایل ایف اور بی ایل اے جیئند والے دوست تو قوم دشمن ہیں، ان میں سے کوئی پراکسی ہے، کوئی وطن غدار ہے، کوئی تحریک پر بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے جبکہ کچھ لوگ تو مجرم ہیں، اُنہیں سزا دینا ابھی باقی ہے۔ اب قوم دشمنوں سے پراکسیوں اور بلوچ نسل کشی کرنے والوں سے کیوں اتحاد ضروری ہو گیا؟ میں کوئی طنز نہیں کررہا اور نہ ہی کسی پر سیاسی حملہ کر رہا ہوں میرا مقصد قطعاً کسی کو نیچا دکھانا نہیں ہے، بس کچھ حل طلب سوالات ہیں جو مجھے بار بار کھائے جا رہے ہیں، مجھے تحریر کرنے پر مجبور کر رہے ہیں وہی باتیں جو ایک طرف اُن کے دوست آج بھی کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب اتحاد کا نعرہ؟ پھر اتحاد کس سے اُن کے ساتھ جن پر قوم دشمنی، مفاد پرستی، نمود و نمائش، شوق لیڈری جیسے الزامات ہیں بقول آپ کے قوم آپ کے ساتھ ہے، لیڈر حیربیار مری ہے، پورے جدوجہد کا باگ دوڑ حیربیار کے ہاتھ میں ہے، عالمی سطح پر آزادی کا موقف منظم رنگ میں حیربیار نے پیش کیا ہے، عالمی سطح پر ان اٹھارہ سالوں میں حیربیار نے پوری دنیا کو بلوچ قومی آزادی کے جدوجہد کے بارے میں آگاہی دی ہے۔

دنیا گر حیربیار کو بلوچ قوم کا نمائندہ تسلیم کر چُکی ہے، قومی طاقت حیربیار کے ہاتھ میں ہے پھر؟ کیا وجہ ہے ان منافقوں سے نمود و نمائشی لیڈروں سے اتحاد کی ضرورت ہے؟ ان بلوچ کش غداروں سے پھر اتحاد چے معنی دارد ؟ بقول آپ کے اگر کوئی قومی جدوجہد کیلئے نقصاندہ ہے، ہم ان کے ساتھ کبھی بھی مذاکرات نہیں کریں گے، اُن کے ساتھ اتحاد نہیں کریں گے اور آپ کے یہاں یہ مقولہ بھی بہت عام ہے کہ بقول سنگت حیربیار مری اگر میں تنہا بھی رہا تو بلوچ آزادی کیلئے جدوجہد کروں گا، تو پھر آج وہ تنہا بھی نہیں، بقول آپ کے قوم اُن کے ساتھ ہے پوری تحریک کا سب کچھ وہی ہے، بلوچستان میں پورے جنگجو اُسی کے ماتحت کام کر رہے ہیں، تو اب کیا مصیبت آن پڑی ہے کہ قوم دشمنوں سے اتحاد کو چل دیے؟ جن پر آٹھ سالوں سے الزامات کی بھرمار کرتے آئے ہو، اب ان کے ساتھ کیسا اتحاد، کیسی یکجہتی؟ کیا آپ لوگوں کو پتا نہیں تھا کہ اتحاد دو ہزار چودہ میں بھی ضروری تھا؟ جب آپ کی ٹولی نے بی ایس او پر چاروں اطراف سے وار شروع کیا، یو بی اے کے سرمچاروں پر حملے کیے، ایک فرد کی ضد کی خاطر پورے تحریک پر دھاوا بھول دیا گیا، وہ سب در گزر کر دیئے جائیں، کیا مکالمہ پہلے نہیں ہو سکتا تھا جو آج مکالمہ کی باتیں کر رہے ہیں؟ اُنہیں ہم بتانا چاہتے ہیں کہ 2014 میں جب آپ سب بی ایس او پر حملہ کر رہے تھے اُسے توڑنے کے منصوبے بنا رہے تھے تو اُس وقت چیئرمین زاہد آپکے پاس مکالمے کیلئے آیا تھا لیکن اُنہیں آپ لوگوں کی جانب سے کتنی عزت ملی وہ ہمیں معلوم ہے۔

کیا ہم سب کچھ بھلا دیں؟ کیا ہم اُن وقتوں کو بھولا دیں، جب ایک طرف دشمن تو دوسری طرف آپ لوگوں کی جانب سے تنظیموں پر مخبری اور ہمارے لیڈروں پر غداری کے الزامات لگائے گیے؟ کیا ہم بھول جائیں کہ تنقید کے نام پر بی ایس او کو دو لخت کیا گیا؟ کیا ہم بھول جائیں کہ ایک انسان کو لیڈر بنانے کی چکر میں پوری قومی تحریک کی دھجیاں اڑائی گئیں؟ کیا ہم رحمدل مری کو بھول جائیں؟ کیا ہم یو بی اے کے دوستوں پر مڈی کے نام پر حملے کو بھول جائیں؟ کیا ہم پراکسی کے الزامات اور عوام کے اندر قومی تنظیموں کو بدنام کرنے کے سازشوں کو بھول جائیں؟ کیا ہم اُستاد اسلم اور بشیر زیب جیسے عظیم جہدکاروں پر آپ کے بے بنیاد الزامات کو بھول جائیں؟ کیا ہم نو سال سے جاری اس سوشل میڈیا مہم کو بھول جائیں جس کا مقصد صرف اور صرف قومی تنظیموں کو عوام کے اندر نیچا دکھانا تھا؟ کیا نواب خیربخش مری کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کو بھول جائیں؟ کیا ہم سنگتوں پر حملوں کو بھول جائیں؟ کیا ہم شہید ریحان کی قربانیوں کے ساتھ ہونے والے مزاق کو بھول جائیں؟ کیا ہم گراؤنڈ میں موجود لیڈروں کی سوشل میڈیا میں آپ لوگوں کی قومی تحریک مخالف تحریک کو بھول جائیں؟

کیا ہم یہ سب بس بھول جائیں کہ حیربیار نے دعوت دی ہے اور ہم بھاگم بھاگ دوڑ کر اُن کے پاس چلے جائیں اُن کو قومی رہنما تسلیم کریں اور بس بات ختم یہ سب کچھ ختم جو اتنے عرصے ایک منظم انداز سے کیا گیا، یہ کیا بات ہوئی کوئی معافی کوئی غلطی کا اعتراف، سوشل میڈیا کو تو آپ لوگوں نے جنگ آزادی کا میدان سمجھا ہے، کیا کبھی یہاں ہمت کرکے اپنے غلطیوں کا کبھی اقرار کیا ہے؟ نہیں ناں کیونکہ آپ کے نظر میں آپ ابھی بھی سچے ہیں ہم ابھی بھی قوم دشمن ہیں غدار ہیں، پراکسی ہیں تو پھر مکالمہ کی کیا ضرورت اتحاد کی کیا ضرورت اپنے لیڈر کے ساتھ جنگ جاری رکھیے اور ہمیں بھی کام کرنے دیجیئے۔

اگر تھوڑا بہت بھی احساس ہے کہ ہم کہیں تو غلط نہیں؟ بس اپنا یہ کرشماتی اور ایک قوم، ایک تحریک اور ایک لیڈر والا نعرہ بلند کرنے کے بجائے سارا دن فیسبک میں ایک انسان کو خدا بنانے کی جدوجہد کے بجائے بلوچستان میں ہونے والے ریاستی مظالم پر سوشل میڈیا میں کچھ آگاہی پھیلائیں تنظیموں اور دوسرے لیڈروں کی عزت کرنا سیکھیں، جدوجہد پر ڈاکہ ڈالنے کے بجائے اپنے قبلے کو درست کرنے، اُسے منظم بنانے کی جدوجہد کریں اور معطل معطل والا نعرہ اُٹھانے کے بجائے اُن کے دور جانے کی وجوہات ڈھونڈنے کو کوشش کیجیئے، یہی کافی ہے فی الحال، باقی اتحاد ایک رات کو سوجھی اور اگلے دن پورا ہونے والا خواب نہیں ہے، اگر بی ایل اے اور بی ایل ایف کا اتحاد تین مہینوں کے اندر ہو سکتا ہے، تو آپ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے بات بس نیت صاف کرنے اور اپنی ضد بغض اور انا کو ختم کرنے کی ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔