حقیقی لیڈرشپ
تحریر: خالد شریف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
حالیہ واقعات کے تناظر میں کچھ چیزیں بہت ہی پیچیدہ شکل اختیار کر رہی ہیں۔ جو بلوچستان میں جاری آزادی کی جنگ میں مخصوص حد تک اثرانداز ہیں، جنکا حل ہمارے اس جہد اور اپنی آزاد ریاست کے قیام کیلٸے بے حد اہم ہیں۔ ان معاملات سے نمٹنے اور ان میں بہتری لانے کیلٸے ہمیں ان سے دور بھاگنا نہیں چاہیٸے کیونکہ یہی مساٸل ہمارے جہد میں بڑی رکاوٹوں سے کم نہیں۔ ان تمام مساٸل اور عوامی قوت کو مدِنظر رکھ کر ان مساٸل کو اجتماعی اتفاق کے ایجنڈے میں رہ کر حل کرکے ہم اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
چاہے مسلح جدوجہد کے حوالے سے ہو، سیاسی حوالے سے، عوامی قوت کو مضبوط کرنے کیلٸے بہترین لیڈرشپ کا انتخاب اور اس لیڈرشپ پر باریک بینی اور مخلصی سے عمل درآمد ہونا اور انہی مخلص لیڈروں کے زیر عمل اقدام کا تعین بے حد اہم ہیں۔ اگر ہماری لیڈرشپ میں کسی نقطے کی مانند بھی کمی ہوٸی تو یہ ہمارے لٸے مساٸل کا سدباب ہوسکتا ہے۔
لیکن ہم ابھی تک اپنے ذاتی مفادات کے حصول کیلٸے پیدہ کردہ مساٸل سے نہیں نکل پاٸے ہیں، تو قومی مفاد تو دور کی بات ہے ہم ماضی میں اگر جھانک کر دیکھنے کی کوشش کریں تو بہت سی کمی و کوتاہیوں کا اندازہ ہوجاٸیگا۔ یہ انفرادی جہد نہیں اگر شعوری نظریئے سے دیکھا جاٸے، تو یہ ایک نسل کی نہیں بلکہ سلسلہ در سلسلہ اپنی نسلیات کے مستقبل کی جنگ ہے، جو غلامی سے اجتماعی آزادی کی جنگ ہے۔
اسی لیٸے اس جدوجہد کو شعوری جدوجہد کہا جاتا ہے، نہیں تو پھر حیوان کی طرح صرف بچے پیدا کرنے اور انکی پرورش کرنا زندگی کی اصل معنی تو نہیں۔ فرق صرف یہی ہے کہ ایک شعوریافتہ انسان بہت سی چیزوں پر غور و فکر کرتا ہے لیکن حیوان نہیں کرسکتا۔
ہم ایک لاشعوری ذہانت سے سوچیں تو پھر ہمیں یہ ایک تسلسل کی طرح نظر آٸیگا، یہ چلتا آرہا ہے اگر انہی منصوبوں کو آگے چھوٹ دی گٸی تو بلوچستان میں جاری ہماری جنگ ِٕ آزادی کو کافی حد تک پیچھے دھکیل دینگی، جو ہمارے لٸے بے حد نقصان دہ ہیں ہماری عوامی قوت ایک خاص حد تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاٸیگا۔ یعنی بجاٸے دشمن کے ہم خود اپنے پاٶں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔ تو اسکے تدارک کیلٸے ہمیں اپنی لیڈرشپ کو مضبوط کرنے اور متفق ایجنڈے کی اشد ضرورت ہے۔
ان بحرانوں سے نکلنے کیلٸے مخصوص ایجنڈے کا قیام لازم ہے۔ اگر ہم ان تمام بنیادی ضروریات سے فراموشی اختیار کرینگے تو یہ ہماری ایک مملکت کے قیام کی کوششوں کو شیشے کی مانند چور چور کردینگے۔ ہمیں اگر اپنی منزل ِٕ آزادی کو پانا ہے تو تمام بحرانوں سے دستبرداری نہیں بلکہ انکا حل نکال کر ایک پلیٹ فارم سے اپنی جہد کو پختہ اور بہترین حکمت عملیوں سے بہترین نتاٸج پا سکتے ہیں۔
حالیہ واقع جو ہماری لٸے بے حد اہمیت اور قابل غور ہیں، یعنی جنرل عبدالرازق کی شہادت اور افغانستان میں جاری قومی الیکشن اور یہ ناگوار حادثہ تو ایک بہت بڑی گیم کی عکاسی کر رہی ہے، جس میں بہت سی بڑی قوتوں کا ہاتھ ڈاٸریکٹ ملوث ہے یعنی جنرل رازق جو بالکل ڈاکٹر نجیب کی طرح ایک انقلاب پسند اور سامراجی نظام کو نہ ماننے والے شخصیت تھے۔ سامراجی قوتوں کے سامنے ایک رکاوٹ کی طرح حائل تھے۔
حالیہ الیکشن میں جنرل رازق کی عوام میں مقبولیت شاید ہو سکتا تھا کہ عوام کی پسندیدہ شخصیت اور اتنی عوام سپورٹ سے پریزیڈنٹ شپ کیلٸے بھی مستقبل میں چنا جاتا، جو ان ممالک کیلٸے اجل سے کم نہیں ہوتا، جو سینٹرل ایشیأ میں اپنے مفادات کی خاطر فساد پھیلا رہے ہیں۔ یہاں افغان حکومت کی لیڈرشپ کی بھی کمی و کوتاہیوں کا خاصہ ہاتھ شامل ہے، جو براہ راست اس واقعے میں کافی حد ظاھر ہورہی ہے۔
ورنہ ایسے واقعات کا دن دھاڑے اتنی ٹاٸیٹ سیکیورٹی میں عمل پزیر ہونا ممکن نہیں۔ تو ایک خاص پلیننگ کے تحت اور بہت سے اندری مدد سے ہی ایسے کاروواٸیاں ممکن ہوسکتی ہیں۔ تو ایسے اور بھی کٸی واقعات موجود ہیں جہاں بھی انقلابی لیڈرز نے اپنی قومی مفادات کیلٸے جدوجہد کی اور مرکزی سطح تک پہنچے تو ایسے لیڈرز کو اپنی گیم کا شکار بنا کر دہشتگردی کا شکار کرواکر قتل کردیا گیا۔
جیسے صدام حسین، جنرل قذافی وغیرہ جنہوں نے اپنی قوم میں سامراجی قوتوں کے خلاف آگاہی دی اور انکے مخالف برسرپیکار ہوٸے تو انکو بھی جنرل عبدالرازق کی طرح سامراجی طاقتوں کے ذریعے قتل کروادیا گیا۔ صرف اور صرف بکاو یا پراکسی لیڈرز کے بدولت یہ سب ممکن ہوئے، ورنہ صدام حسین ہو قزافی ہو یا جنرل عبدالرازق تو ایسے موت کے گھاٹ نہیں اتار دٸیے جاتے۔
ہماری اس جہد میں اگر ہم بھی اسی طرح نہ پختہ لیڈرشپ جو صرف اپنی مفادات کے تحت ہمارے ہمراہ ہوکر اس جہد میں شامل ہیں، ساتھ دیںگے، تو یہ کافی حد تک ہمارے لٸے نقصانات کا سبب ہوگا۔ جو تاریخ میں صدام حسین، قذافی اور جنرل عبدالرازق کے ساتھ ہوا کل ہمارے ساتھ بھی رونما ہوسکتا ہے، جس کی ہمارے جہد میں برداشت کی گنجاٸش ہی نہیں۔
تو اس ایک سال نے ہمیں بہت سے چھپے سانپوں کا پتہ تو بتا دیا ہے لیکن ابھی بھی ہم انہیں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور صرف بات قومی مفاد کی کیجاتی ہے لیکن عملی لیڈروں کی سامنے اپنے پروپگنڈوں، ذاتی مفادات کے تحت رکاوٹ بن کر عوام قوت کو کافی نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو لوگ سوچتے ہیں کہ وہ ایسے نام نہاد قومی لیڈر کا ساتھ دیکر قومی داٸرے کو خستہ حال کر رہے ہیں، تو یہ کسی بےوقوفی سے کم نہیں۔
ہمیں یہ واقعات اور اس سے ہوٸے نقصانات یہ اندازہ کراتی ہیں، اگر جب تک ہم بلوچ اپنے مٶقف کو مخلص انداز میں نہیں سمجھتے اور جب تک اپنی ذات پرستی، اناپرستی، اور انفرادی منصوبوں پر ڈٹے رہینگے تب تک ہمارے دشمن کو نقصان دینے کا کوٸی فاٸدہ نہیں۔ صرف شکلیں بدل کر مفادپرستی کو جواز دینا تو نفع بخش ثابت نہیں ہوسکتا۔
ہم بلوچوں کا اپنے مخلص نماٸندوں کو جان کر انکے شانہ بشانہ کھڑے رہنا، اس وقت کی سب سے اہم عمل سمجھتا ہوں۔ ورنہ عراق ، افغانستان اور شام کی طرح اپنے عظیم لیڈروں کو کھونے سے ہمیں کوٸی نہیں بچاسکے گا۔
ہمیں اپنے اس سرزمین کی بین الاقومی اہمیت کو باریکی سے جاننے کی بہت ضرورت ہے اور جو ممالک ہمارے سرزمین کے جغرافیائی اعتبار ہو یا چاہے ساحل و وسائل کو پانے، اپنی ملکی مفادات کے تحت اس بگ گیم میں شامل ہیں. آئے روز ان کے بدلتے پروپگنڈوں کو باریکی سے جاننے اور ان پروپگنڈوں کیخلاف اپنی قومی مفادات کے تحت حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے. عوامی قوت کو تناظر رکھ کر ہم اس مشکل جدوجہد کو کافی حد تک آسان بنا سکتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔