جنگِ آزادی اور عوامی ذمہ داری ۔ خالد شریف بلوچ

206

جنگِ آزادی اور عوامی ذمہ داری

تحریر۔ خالد شریف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

غلامانہ سماج ایک بیمار جسم کی طرح ہوتا ہے۔ جب تک اس بیمار جسم کے ہر عضو کا علاج نہیں کیا جاٸے، تو ایک مہذب، با شرف، منظم اور ترقی یافتہ آزاد ملک کا قیام بلکل طوفانی بارش میں مٹی کا پتلا بنانے کی طرح ناکام کوشش ہے۔ تو ایک مکمل آزاد مملکت کی بنیاد کیلئے بہت سے مشکل اورکٹھن بنیادی مراحل کی پختگی کے ساتھ طے کرنا لازم ہے۔

آزادی کی جنگ میں بہت سارے مصیبتوں کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ کیوںکہ غلام قوم ہمیشہ مظلوم اور کمزور ہوتے ہیں، وہ جتنا بھی کہنے کی کوشش کریں۔ جب تک عملاً کاروائی نہ کی جائے تب تک کوئی بھی اُس کی بات کو سننے والا نہیں، وہ اسلیئے کہ دنیا کی کسی بھی ملک کا مفاد جب اُس غلام قوم کیساتھ بندھی ہوئی ہوتی ہے، چاہے وسائل کی اہمیت کے حامل یا جغرافیائی حوالے سے تب تک وہ اپنی سامراجی طاقت کی بدولت اور اپنی سامراجی اسر و رسوخ کا استعمال کرتا ہے .

مظلوم قوم کی سرزمین چاہے جتنا بھی مالامال ہو۔ وہ پھر بھی ایک غلام مظلوم اور کمزور قوم ہے۔ جب تک دنیا اُس کی حمایت یا مدد نہیں کرتا۔ تب تک وہ اپنی بقاء و آبرو کی مہذبیت میں مکمل حاملیت نہیں پا سکتا۔ اور یہ حقیقت ہے ہمیں اس جدوجہد میں ہر نقطے کو باریک بینی سے دیکھنے کی اشد ضرورت بھی ہے .

تو ہمیں ہر طریقے کار کو سمجھنے اور بہترین حکمت عملی پر کامیابی سے عمل کرنےکیلئے بہت سی کامیاب اور ناکام ہونے والے، گزرے ہوئے آزادی کی جنگوں کا مطالعہ، اسباب اور پیش آئی مشکلات اور انکی تدابیر پر غوروفکر لازمی ہے۔ میں اسی بابت انگولا کی جہد ِ آزادی سے جڑے چند پہلو واضح کرنا چاہتا ہوں، جو ہماری جدو جہد کے اسی دورانیئے پر موضوع اثر ہیں.

مبصرین کے مطابق جب 1970 ‌ء میں عوامی سپاہیوں نے اپنے حملوں میں 60 فیصد کا اضافہ کردیا یعنی پرتگالی فوج کے حملوں کے خلاف ڈٹ کر لڑنے میں 300 فیصد اضافہ کیا اور دشمن کو 25 فیصد زیادہ جانی نقصان پہنچایا.

1971 میں بھی مسلح جنگ اسی طمطراق کیساتھ آگے بڑھی۔ اب پہلے ایم پی ایل اے اس قابل ہوگئی کہ 100 سے لیکر 150 تک جانبازوں کے گشتی دستے قائم کرے اوران دستوں نے پرتگالی فوجی چوکیوں پر حملے کئے اور بہت سی چوکیوں اور کیمپوں کا صفایا کردیا۔

انگولا کے حریت پسندوں اور عوام کو دبانے کیلئے پرتگال نے انگولا میں60 ہزار فوج لگا رکھی تھی۔ اس فوج کو امریکہ کے علاوہ جرمنی ، فرانس اور دوسرے یورپی ممالک کی طرف سے جدید ہتھیار مہیا کئے جاتے تھے۔ ناٹو فوجی معاہدہ کارکن ہونے کی حیثیت سے پرتگال کو ان سامراجی ملکوں کی طرف سے مکمل حمایت حاصل تھی۔ اسکے علاوہ جنوبی افریقہ اور جنوبی رسڈیشیا کی نسل پرست گوری اقلیتی حکومتیں بھی اس عوام دشمن جنگ میں ملوث تھیں۔

ان سامراجیوں، نسل پرستوں اور آزادی کے دشمنوں نے نہ فقط انگولا کے عوام کو ہوائی جہازوں، ہیلی کاپٹروں، بمبوں، راکٹوں، توپوں اور بندوقوں سے کچلنے کی کوشش کی، بلکہ انکی کھیتوں پر زہر چھڑکا گیا معصوم بچوں پر جسم جلانے والے نیپام بم پھینکے گئے عورتوں کو پکڑ کر ازیتیں دی گئیں۔ لاکھوں لوگوں کو اپنے گھروں اور آبائی گاؤں سے بےدخل کرکے ”حفاظتی ‌‌” کیمپوں میں مقید کیا گیا۔ تاکہ وہ آزادی کی جنگ میں حصہ نہ لے سکیں. آزادی کیلئے لڑنے والوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کیلئے سازشیں کی گئیں۔

عوام کے سچے نمائندوں کو بدنام کرنے کیلئے مفادپرست نما ئندوں کا سہارہ لے کر ناکام شرانگیز پروپیگنڈے کئے گئے، بہت سے کرائے کے لیڈر پیدا کرکے عوام پر تھونپنے کی کوشش کی گئیں. عوام کو جدوجہد سے بدظن کرنے کیلئے باقاعدہ گمراہ کن نفسیاتی جنگ بھی چلائی گئی تاکہ لوگ واقعی یہ سمجھیں کہ پرتگالی نوآبادی راج انکی اپنی بہبود کیلئے ہے، یہ تمام کوششیں اور جدوجہد بھوک اور افلاسی کے سوا کچھ نہیں ملےگا ۔لیکن جب انگولا کی عوام نے بھی اس جہد میں پیش در پیش شمولیت کی پرتگالی سامراج کی کمر ٹوٹ اور انگولا کی عوام کو پرامن آزاد فضا مل گٸی۔

تو یہ سب باتیں اسی بے بسی و لاچاری کی عکاسی کرتے ہیں جو ایک غلام قوم کو دبائے رکھنے کو حربے کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں، آج ہمارے اس جدوجہد کو دبانے کیلٸے بھی یہی حربے استعمال ہو رہے ہیں، جیسے کے اسمبلی میں بیٹھ کر حق خودارادیت کا نعرہ لگاتے ہیں اور بہت سے لوگ تو ظاہری طور پر ہمارے اس جہد کی مخالفت میں شانہ بشانہ قدم بہ قدم کھڑے ہیں ہر حوالے سے قبضہ گیر کی حمایت میں شامل ہیں .

اور بلوچ عوام کی قتل و غارت میں عملاً شامل ہیں اور دوسری طرف اپنی مکاری کو چھپانے کیلٸے بلوچ قوم سےدوستی اور درد واری کا ڈھونگ رچاتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ بلوچ قوم کے دردوار نہیں بلکہ دامن میں چپھے وہ زہریلے سانپ ہیں جو اپنی مفاد کی خاطر بار بار ہمیں ڈستے رہتے ہیں .

اور ہم بھیڑ کی طرح پھر بھی انکی حمایت میں اپنے قومی سپاہیوں کی مخالفت میں ہر طرح کی قومی غداری سے پرہیز نہیں کرتے ہیں کیونکہ ہم غلام ہیں اس سامراج کے اور اسکے حامی دلالوں کے وہ یہ حقیقت بہتر جانتے ہیں کہ اگر ہماری جہد میں کامیابی حاصل ہوئی تو انکی یہ ذاتی مفاد پر مبنی روایات کا رواج اور انکے لوٹ مار کا دور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائیگا اسی ناکام کوشش میں یہ اپنی انا و مفادپرستی کی انتہا میں انسانیت کی آخر درجے سے بھی ناواقف ہوجاتے ہیں .

کیونکہ جہاں انسان اپنی انا پر اڑجاتا ہے، پھر اس کیلئے انسانیت اور حقیت کا کوئی معنٰی نہیں ہوتا چاہے وہ کتنا ہی شعور یافتہ کیوں نہ ہو لیکن نفسیاتی حوالے سے اگر انسان کا زہن کسی سوچ پر منحصر ہوجائے تو سیاسی کاوشوں کے ساتھ ساتھ عملی کوششوں سے ہی اپنی آواز بلند کی جاسکتی ہے .

بلوچ قوم کی جہد ِٕ آزادی میں ان رویاتی معتبروں کو رکاوٹ کے تحت، پلیننگ کرکے کام کرنے اور جہد سے توجہ ہٹانے کی سازشیں اپنی زوروں پر ہیں اور جیسا کے تاریخ میں ان رکاوٹوں اور ریاستی مہروں کی نگہداشت کیلئے مسلح جہد کیساتھ سیاسی ہم آہنگی نے کردار ادا کیا اور وہ قومیں جو ظلم و جبر کی سامنے نہیں جھکے بلکہ اپنی قومی جہد میں اپنے قومی سپاہیوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہے اور جوق در جوق شمولیت کی امداد کی تو انہیں اپنی ایک آزاد فضاء میسر ہوئی، ورنہ اپنی قوم کا غلامی سے چھٹکارہ ایک حد تک ممکن نہیں۔

کچھ ایسے لوگ جنہوں نے اس قومی جنگ کو اپنی بزنس کیلئے بونس جنگ بنا رکھا ہے اور مفادکے تحت اس قومی جنگ کو چلانے کی کوشش کر رہے ہیں یہ ان لوگوں کی مانند ہیں جو انگولا کی جنگ ِٕ آزادی میں کرائے کے لیڈران تھے یہ وہ لوگ ہیں جن کو قومی مفاد سے کوئی غرض نہیں بلکہ اس قومی جنگ میں بھی اسی لئے شامل ہیں .

کیونکہ انہوں نے قومی جہد کو اپنے لئے بزنس ٹریبیونل بنا رکھا ہے، جب تک انکی مفاد کی بنیاد پر قومی جہد بین الاقوامی کاروبار زریعہ اور معاشی سرپرستی کے حصول کے طور پر استعمال ہو رہی تھی، تو خوش تھے لیکن جب اس جنگ مخلص پیروکاروں اور قومی مفاد پرستوں کا نزول ہوا، تو ان انا پرستوں کے لاکھ کوششوں کے باوجود بھی قومی دائرے میں شامل اور مفاد پرست شخصیات کیلئے زمین تنگ ہونے لگی اور اب نوبت تو اس قدر تک آ پہنچ چکی ہے کہ یہی مفاد پرست جو کل تک قومی مفاد اور قومی جنگ میں اپنی مفاد کے بنا پر شامل تھے، آج اپنی ناقص پالیسیوں کے تحت قبضہ گیر پاکستان کے سامنے اپنے لوگوں کو سرینڈر کرا رہے ہیں، کیونکہ ایک مخصوص حد تک انکے مفاد چھپے ہیں اور پراکسیز بن کے اپنا بزنس چلا رہے ہیں .

یہ قومی جہد نہیں کر رہے ہیں لیکن پورا قوم انکی اس ڈبل گیمنگ سے واقف ہے اور جو لوگ مخلص ہیں اپنی زاتیات و انفرادیت کے بجائے قومی جہد کر رہے ہیں بلکہ قومی گراٶنڈ میں انکا کردار واضح ہے، انہیں کسی بھی صفائی و دلائل کی ضرورت نہیں۔

بلوچ ایک مہذب اور بےشمار وسائل، معدنیات اور جغرافیائی اعتبار سے ایک نایاب سرزمین کے خود مالک و حکمران ہیں، تو اپنی ہی سرزمین پر اس طرح غلامانہ زندگی گزارنا کیا ہماری غلامی اور ان ناانصافیوں کی عکاسی نہیں؟ آج ہر زی شعور کو اپنے حقائق کا بخوبی علم ہے۔

ہر بلوچ کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے قومی بقا اور قومی عزت کی خاطر اپنا کرادار ادا کرے۔ اگر ہم مکمل ایک آزاد قوم ہوتے تو اس طرح اپنی سرزمین پر ایسے اجنبیوں کی طرح ہمارے بھائی، بہنوں، بچوں اور بوڑھوں کی لاشیں پڑی نہ ہوتیں۔ اپنے حق کیلئے لڑنا تو بلکل بغاوت نہیں بلکہ ہر بلوچ کا قومی فرض ہے۔

میں نہیں مانتا کہ بلوچستان میں انسانیت سے کبھی بھی پاکستانی سامراج نے برتاٶ کیا ہے۔ پاکستان کی قتل و غارت ہمارے نسل کشی نہیں؟ ہم بلوچ اپنی ہی سرزمین سے گمشدہ کئے جارہے ہیں کیا یہ ہمارے ساتھ ظلم نہیں؟ اگر ہم یہ جانتے ہیں اور اپنی آزادی کی خاطر جدوجہد نہ کریں، تو ہماری نسلیں بھی اس غلامی کی دلدل میں دھنستے جائینگے۔ بلوچ قوم کو اپنی قومی سپاہیوں کی امداد خود کرنی ہے، نہ کوئی اور کر رہا ہے نہ کوئی کریگا، ظاہر ہے یہ ہمارا اپنا خود کا قوم جنگ ہے غلامی سے آزادی کی طرف.

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔