جنرل ایوب خان سے حیربیار مری تک
تحریر۔ عمر جان
دی بلوچستان پوسٹ
تاریخ کے طالب علموں نے دنیا جہاں میں عروج و زوال کی مسافت طے کرنے والے سلطنتوں، تحاریک اور شخصیات کے درجنوں واقعات کا ضرور مطالعہ کیا ہوگا کہ کیسے طاقتور سلطنت ، تحریک اور شخصیات اچانک یا آہستہ آ ہستہ عروج کی سیڑھیوں سے اتر کر زوال کی کھائی میں جاگرے۔
اسباب و علتِ زوال کا مطالعہ ایک دلچسپ موضوع ہے اور اس پہ اس وقت تک درجنوں کتابیں مختلف زبانوں میں شائع ہوچکی ہیں۔
سماجی محققوں کے ان تجزیات و تحقیقات کو اپنے سماج پر منطبق کرکے اگر ہم اپنے اردگر کا جائزہ لیں تو چند ایک واقعات ہمارے سامنے آتے ہیں۔ پاکستان پر 1958 کے دور سے حکمرانی کرنے والے آمر جنرل ایوب کے متعلق سب جانتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح اقتدار حاصل کی اور کس طرح حکمرانی کی اور اس کا انجام کیا ہوا۔
ابتداء میں جب اس نے اقتدار سنبھالا تو سب نے مٹھائی تقسیم کی لیکن پھر کیا ہوا؟ جنرل ایوب خان کے متعلق مشہور ہے کہ پاکستان کے اصل اور حقیقی صورتحال کے برعکس اس کیلئے ایک علیحدہ اخبار شائع کیا جاتا تھا، جس میں صرف اور صرف ایوب خان کی تعریف و توصیف والے بیانات اور تحریریں ہوتے تھے۔ لیکن مخصوص اخبار کی اشاعت کا پول اس وقت کھل گیا جب ایک دن ایوب خان سبزہ زار میں بیٹھ کر اخبار پڑھ رہے تھے کہ قریب ہی اس کے دو چھوٹے نواسے آپس میں کھیل رہے تھے جو اچانک نعرے لگانا شروع ہوگئے کہ “ایوب کتا ہائے، ہائے”
تعریفی اور خصوصی اخبار کے مطالعے میں مصروف ایوب چونک گئے اور بچوں کی خیالداری پر معمور شخص سے پوچھا کہ یہ بچے کیا کہہ رہے ہیں؟ تو اس شخص نے کہا کہ جب میں ان کو اسکول تک لے جاتا ہوں تو راستے میں آپ کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں لوگ یہی نعرہ لگاتے ہیں اس لئے ان بچوں نے بھی اُدھر ہی سے سیکھا ہوگا۔ اس کے بعد کیا ہوا، وہ تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں۔
اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی جانب۔ گذشتہ روز ایک دوست کے بھرپور اسرار پر اپنے دیگر چند دوستوں کے ہمراہ کوئٹہ کلی اسماعیل میں شادی کی تقریب میں منعقدہ میوزک پروگرام میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ کلی اسماعیل ایک زمانے میں بلوچ آزادی پسند دوستوں اور ہمدردوں کا مضبوط و محکم گڑھ تھا۔
لیکن حیرت و حیرانگی مجھے اس وقت ہوئی جب میوزیکل پروگرام میں شریک گلوکاروں کے گروپ نے بلوچ آزادی کی جدوجہد سے منسلک ایک لیڈر کے خلاف گانا بجانا شروع کیا۔ ہم چند دوست حیرانگی کی عالم میں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے اور کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے اورمجمع میں کوئی بھی مخالفت بھی نہیں کررہا ہے، اس گانے کی۔ اگر گانا پورے آزادی کی تحریک کے خلاف ہوتا تو ہم سمجھ جاتے کہ یہ ریاست حمایتی افراد ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ باقی آزادی پسند لیڈروں کی توصیف اور محض ایک لیڈر کے خلاف گانا بجارہے تھے اور سب کے سب عام غیر سیاسی لوگ تھے۔
کلی اسماعیل سے تعلق رکھنے والے اپنے ڈاکٹر دوست سے سرگوشی میں پوچھا کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ تو ڈاکٹر ایک دم گویا ہوئےاور کہنے لگا یہ جو آپ سن رہے ہو حقیقت ہے، اسے جھٹلانا اب مشکل ہے۔
ڈاکٹر کے بقول ایک وقت تھا جب کلی اسماعیل سمیت کوئٹہ اور پورے بلوچستان میں حیربیار مری کا نام سنتے ہی لوگوں کے دلوں میں جوش و جذبہ پیدا ہوتا تھا، مہر و محبت کی لہر دوڑ جاتی تھی، لیکن آج کل عالم یہ ہے کہ شادی کی تقریب ہو یا کوئی فوتگی، جب بھی بلوچ سیاست پہ گفتگو ہو اور بالخصوص آزادی پسندسیاست کے متعلق تو لازم لوگ حیربیار مری کی بلوچ جہدآزادی کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات اور بالخصوص سوشل میڈیا میں دیگر آزادی پسندوں کے خلاف منفی مہم کی مذمت کرتے ہیں۔
بہت سے لوگوں کو موجودہ پانچویں جنگ کی ابتداء یاد ہے کہ جب بھی حیربیار مری کے بیانات اخبارات میں آتے تو وہ نام کے سامنے نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے لکھا ہوتا تھا۔ لیکن پھر اسی باپ کے ساتھ اس کی زندگی میں حیربیارمری نے کیا رویہ اپنایا اور پھر اس کی وفات کے بعد کس طرح رنگ بدل کر اسے اپنا استاد قرار دیا یہ سب تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ آپ لوگوں کو بھلے ہی عوام یا عام لوگ کہہ کر جو دل چاہے کریں، لیکن وہ سب دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔
ہمارے تمام سیاسی کارکنوں کو یہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ سوشل میڈیا میں آج یا آج سے قبل جو کچھ ہوا، وہ کبھی بھی بطور حوالہ مستقبل کے تاریخ دان پیش نہیں کریں گے بلکہ اگر تاریخ دان جب تاریخ رقم کرنے لگیں گے تو وہ لیڈروں کے فیصلوں کو مدنظر رکھ کر تاریخ مرتب کریں گے۔
اب کوئی بھی باشعور سیاسی کارکن خود ہی تھوڑی دیر کیلئے یہ سوچ لیں کہ نواب خیر بخش مری کے خلاف حیربیار مری کے فیصلوں نے تحریک کو کتنا فائدہ دیا اور کتنا نقصان؟ مہران مری کے اوپر کرپشن کا الزام لگاکر یو بی اے کے خلاف جنگ کے حیربیارمری کے فیصلے نے بلوچ تحریک کو کتنا فائدہ دیا اور کتنا نقصان؟ بی این ایم و بی ایس او میں مداخلت کے حیربیار مری کے فیصلوں نے سرفیس سیاست کو کتنا فائدہ دیا اور کتنا نقصان؟ اس کے علاوہ استاد اسلم کے خلاف انڈیا والے حیربیار مری کے بیان نے تحریک کو کیا فائدہ دیا اور کیا نقصان؟
بقول ایک دوست کہ آج کل حیربیارمری کو ذرا بھی اندازہ نہیں ہے کہ بلوچ عوام کے اندر اس کے تواتر کے ساتھ غلط فیصلوں کی وجہ کتنی بڑی نفرت اور غصہ موجود ہے، اور حیربیار مری کی حالات کی ناواقفیت کی بنیادی وجہ خود اس کا خوشامدانہ مزاج ہے، جس کا فائدہ اٹھا کر اس کے قریب چند لوگ اسے اندھیرے میں رکھے ہوئے ہیں۔
بلوچستان یونیورسٹی میں مکران سے تعلق رکھنے والے پروفیسر کے بقول کے مکران میں چند نوجوان اپنے گھر کے چار دیواری کے اندر فری بلوچستان موومنٹ نامی تنظیم کی چاکنگ کرکے تصاویر لے کر انھیں فیس بک میں جاری کرتے ہیں اور لندن سے ان کے لئے کچھ رقم آتا ہے۔
اب کوئی خود ہی اندازہ لگائے کہ حیربیارمری کے ارد گرد لوگوں نے اسے کہاں سے کہاں تک پہنچایا ہے۔ لیکن ایک سوال پھر ابھر کر سامنے آتا ہے کہ واقعی حیربیارمری حالات سے بے خبر ہے یا خود ہی موجودہ جہد سے تھکاوٹ کا شکار ہوچکا ہے اور آہستہ آہستہ بلوچستان سے ہاتھ کھنیچ رہا ہے اور حالیہ چند وقتوں سے آنے والے فیصلوں سے صاف طور پر یہی ظاہر ہورہا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔