تنقیدی دانشوری کیوں ؟ – حسن دوست بلوچ

630

تنقیدی دانشوری کیوں ؟

تحریر: حسن دوست بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

آج کل سوشل میڈیا میں مختلف فرضی ناموں، مضامین و تجزیے، علم و دانشوری اور بلواسطہ یا بلاواسطہ تنقید برائے تنقید غیر مفید کج بحثی، خود کو تمام تر ذمہ داریوں سے مبرا اور آب زمزم میں نہلا کر پاک صاف گرداننا، تمام گناہوں کو دوسروں کے کھاتے میں ڈالنے کی ناکام کوشش ایک دفعہ پھر اپنی گرم جوشی سے نظر آرہا ہے۔ بدبختی یہی ہے کہ پہلے جوش و جنون میں اپنے ہی قریبی دوستوں کے نام و علاقے اور یہاں تک کہ عرفیت کا بھی برملا اظہار کیا کرتے تھے۔ اب ماشاءاللہ اس میں اتنی جدیدیت آ چکی ہے کہ اشاروں یا براہوئی میں ایک ضرب المثل ہے “ پاوہ مسڑءِ خف تو نشار“ ۔ کے مصداق ایک دوسرے کی خاطر تواضع کررہے ہیں۔

لکھنے والا یا لکھانے والا خود کو انہی تمام تنقید برائے تنقید و تخریب یا نشیب و فراز یا تحریک کی موجودہ دکھتی ہوئی ناکامیوں اور کنویں کی مینڈک بننے کے عمل کی جستجو یا سنگت و غیر سنگت، قبائلی و نیم قبائلی کی ہیرا پھیری اور سرگردانیوں سے مبرا قرار دیکر، تمام کے تمام کمزوریوں کو اپنے مخالف ( جسے میں مخالف نہیں سمجھتا ) کے اوپر ڈالتا ہے۔

میری دانست کے مطابق موجودہ دور میں جو بھی زیادہ واویلا کررہا ہے یا تنقید برائے تنقید کے راستے پر رواں دواں ہے۔ اس کے باوجود آج اپنی شروع کی گئی تحریک میں آزادی پسندتنظیموں اور مسلح تنظیموں میں اتنی زیادہ دراڑوں اور ٹکڑوں کو دیکھتے ہوئے بھی ایک دوسرے کی خار کم ہونے کا نام نہیں لیتے پڑتے۔ اور یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ انہی تمام بدبختیوں میں اس کا بھی برابر کا حصہ ہے۔ لیکن شومئی قسمت کو دیکھئے کہ اپنے کو مبرا کرنے کیلئے دو چار تنقیدی مضامین لکھ کر اپنی جان کی امان اسی میں ڈھونڈ نکالنے کی ناکام کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ انجان میں وہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے واپس وہی فارمولا دہرا رہے ہیں، جن کی بدولت اور مہربانیوں سے آج تحریک اور سنگت اس نہج کو پہنچ چکے ہیں۔ میرے خیال میں اپنی غلطیوں کو بار بار دہرانا کوئی عقل مندی نہیں ہے۔

ایک بات میری سمجھ سے بالاتر ہے اور میں یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہوں کہ آخر ہم اپنی عقلمندی، علم اور دانشمندی کو کیوں ایک دوسرے کے خلاف بے جا تنقید برائے تنقید میں ڈھونڈ رہے ہیں۔ اپنی تمام قوت اور توانائیوں کو اپنے ہی خلاف اور اپنے ہی بربادیوں کے حق میں استعمال میں لارہے ہیں۔ اور کیا تنقید کے بغیر ہماری دانشوری مکمل نہیں ہو پاتی یا ہماری رگوں میں دوڑتی خون، جو آپسی ضد و انا کی صورت میں ہمیں نصیب ہوئی ہے، جو آج بھی اتنی تکلیف زحمتوں اور شہداء کی خون کی حولی، روز گھروں کی مسماری و بربادی اور یہاں تک کہ خواتین و بچوں کی دشمن کی اذیت خانوں میں سیاہ راتیں اور روز تارتار ہوتی ہوئی عزت اور چادر و چاردیواری کی پائمالی۔

سب سے بڑی بات یہ کہ آج سارے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ہماری سابقہ ادوار کی اسی طرح کی بےجا و بے فائدہ تنقید برائے تنقید ایک دوسرے کے خلاف سوشل میڈیا کی دانشوری نے بلوچ تحریک کو اس نہج تک پہنچایا۔

سابقہ نتائج کو پرکھتے ہوئے آج ہر دانا و نادان اور فکری حوالے سے تحریک کے ہمدردوں سمیت ہر طبقہ فکر آپ کو باخبر کر رہا ہے اور ساتھ ہی دست بندی کررہا ہے کہ موجودہ سائنٹیفک بنیادوں پر شروع ہونے والی تحریک اپنے اختتام کی جانب رواں ہے۔ باوجود ان تمام نشانیوں اور معلومات کے اپنی خامیوں سے دانستہ یا غیر دانستہ یا حالات و واقعات کو جانچنے اور دیکھنے کے باوجود کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنا قطعاً سیاسی ورکر اور انقلابی سرمچار کو زیب نہیں دیتا اور ہمارا یہی عمل قطعاً تحریک کیلئے سود مند ثابت نہیں ہوگا۔

افسوس اس بات پے ہوتی ہے کہ پہلے بھی یہی دانشور مختلف ناموں کے ساتھ کسی اور مخالف گروپ سے رو بہ رو تھے۔ اور ایک دوسرے کو خوب گھسیٹتے یہاں تک کہ اپنے بنائے گئے یا اپنی ہی زبان اور اپنے ہی آرٹیکل یا مجالس میں خطاب بخشنے والے پیغمبروں کو بھی نہیں بخشا۔ آج پھر دوسرے ناموں سے پہلے ایک دسترخوان پے بیٹھے سنگت، اب ستم یہ ہے ایک دوسرے کا گوشت کاٹنے پے تلے ہوئے ہیں۔ ایک دفعہ پھر وہی نادانی دہرائی جارہی ہے۔ کہ جس کے سبب پہلے سے بہت زخم اور درد آپس میں ایک دوسرے کو دیئے گئے ہیں۔

معذرت کے ساتھ اگر یہی دانشور حضرات جن کی حقیقت میں ذمہ داری بھی ہے کہ قوم وتحریک کو راستہ دکھائیں یا قوم، تحریک اور سیاسی ورکر کی رہنمائی کریں۔ لیکن شومی قسمت کہ ہمیں ایسا کچھ نظر نہیں آرہا بلکہ اس کا الٹ ہورہا ہے۔ اپنے ورکروں ہمدردوں کو ہمت اور حوصلہ دینے کے بجائے انہیں مایوسی کے دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔

بلکہ آج حالات سب سے یہی تقاضہ کررہے ہیں کہ ایک دوسرے کو بڑھائی دینے کی ضرورت ہے نا کہ ایک دوسرے کی قمیض اتارنے کے یا خودکو تھوڑا سا سکون دینے کی خاطر بے جا و بے فائدہ تنقید برائے تنقید اور قوم کو مایوس کرنے کے۔

آج افسوس اس بات پے ہوتی ہے کہ ۱۳سال کی جدوجہد میں شعوری طور پر قربانیاں دینے کے بعد بھی وہی لوگ جو تحریک کے روح رواں اور تنظیموں کے ذمہ دار اور قوم کی اعتماد کے ساتھ تمام ذمہ داریاں انہی کے کندھوں پر ہیں۔ لیکن آج اتنی غیر ذمہ داری اور آسانی سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ادارے نہیں ہیں یا انقلابی پارٹیاں نہیں ہیں یا سیاسی حوالے سے تیاری نہیں ہوئی یا ایک دوسرے کو پہچاننے میں دیر ہوئی یا فلاں اپنی قبائلی حیثیت کو چھوڑنے پر راضی نہیں یا فلاں علاقہ پرستی سے آگے نہیں نکلتا۔ یہاں تک کہ یہ تمام خدشات و واقعات، کمی اور زیادتیوں کو بیان کرتے وقت جناب غلطی سے بھی تھوڑے وقت کیلئے اپنی گریبان پے نظر ڈالنے کی زحمت نہیں کرتا کہ اس دوران اس نے خود کیا گل کھلایا ہے۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی غلطیوں کا ہر ایک کو صدق دل اور ایمانداری سے اعتراف کرنا چاہیئے۔ اور یہ عہد کرنا چاہیئے کہ اس دوران جو ناکامیاں یا غلطیاں ہم سے سرزد ہوئیں ہیں، انکو دوبارہ نہیں دہرائیں گے۔ اور صرف اپنے کام سے کام رکھیں گے۔ اور اپنی تمام تر توانائی دشمن کے خلاف استعمال میں لائیں گے۔ کیونکہ آج بھی بلوچ وطن پے جان قربان کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ آج بھی انقلابی سیاسی پارٹیاں (سرفیس اور انڈرگراونڈ دونوں ) مضبوطی سےموجود ہیں۔ صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ انہی پارٹیوں کو مضبوط و توانا کرنا ہے۔ پھر دیکھتے ہیں کہ کامیابی آپ کی قدموں کو چومے گی یا نہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔