تصویر کہانی – برزکوہی

198

تصویر کہانی

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

دو افروختہ افروز پیکرو جاں سے متمایز، لیکن گوہر تشنہ لب و اشتیاق میں ایک، سحر انگیزیت میں ایک، تعین ہدف ایک، طرز فکروعمل ایک، منزل و مقصد ایک، زوایہ نظر ایک، رہن سہن ایک، عشقِ اجل کی پروانگی یکساں، کال کو جاتے ایک ہی پگڈنڈی کے واردوصادر، مگر ایک حباب سے فرق و تقسیم کے بے رحم خنجر نے یکسانیت کی رسی کو بےدردی سے کاٹ دیا۔ ایک ہدف سے پہلے نیا اور منفرد ہدف کا شعوری انتخاب کرکے ایک الگ تاریخ کے آغوش میں اپنے آپ کو درخشان کرگیا۔ دوسرا اپنے ہدف پر پہنچ کر تاریخ کی سفید اوراق کو اپنے خون کی چھینٹوں سے رنگین کرگیا۔

اس اوٹ و بام، چھت و دیوار کے نشانات معمولی نشان نہیں بلکہ یہ نئی سوچ، نئی تخلیق، نئے جوش و جذبے و حوصلے سے لیس تفکر و تردد کااظہار ہیں، جو نئے راستوں کا تعین کرتے، پرانے و بوسیدہ خیالات اور ریت کی بتوں کو مسمار کرتیں ہیں۔ اوٹ و بام کے یہ نشانات تاریخ میں کئی چہروں پر سیاہ دھبے بن گئے۔

وقتِ قضا، اوٹ و بام پر ڈالی گئیں یہ پارچے، اس آمرانہ، حاکمانہ و سوداگرانہ سوچ کے منہ تاابد سجی رہنے والی وہ چرکیں ہیں، جو بتاتی رہے گی کہ کِرودھ فقیری سربازار نیلام ہونے کے رسوائی سے انکاری ہوکر اپنے تئیں آپ ہوا۔

نااہل، نکمے، کام چوروں، راہ فراریت کےمرض میں مبتلا تھکے ہوئے سیاسی و جنگی یتیموں کی کھسر پھسر، تعفن زدہ ماحول، چالبازیوں و ہلڑبازیوں، سازش و ٹانگ کھینچنے کے رواج و رجحانات، سیاسی گِدھوں کی جمگھٹ جو مقام و رتبے کی بھوک و ہرس اور دستار کو بطور تیار پلیٹ اور دسترخوان پر سجے وصول کرنے کے عزم و ارادہ لیئے حقیقی مخلصوں کو روندتے چلے جارہے۔ اس بد باطنی، حرص اور بدنیتوں کے تپتی صحراؤں کی تپش سے جانانِ وطن جان بچاکر، ان رنجوریوں سے متاثر اور شکار ہونے کے بجائے خود کو خود شکست دیکر ہمیشہ کے لیئے فتحیاب و مبرا اور عظیم ہوگیا۔

فطرت کے اصولوں کے مطابق پھولوں کی مہک، نشونماء اور پرورش پرتعفن ماحول اور قحط زدہ صحرا میں نہیں بلکہ نخلستانوں میں ہوتا ہے۔ صرف فنا ہوکر فنا ہونے کا فن و گر اور مہارت سب ہی کے پاس ہوتا ہے، یہ نا صرف عموعی انسانی بلکہ حیوانی جبلت بھی ہوتا ہے، مگر فنا ہوکر ابدی زندہ ہونے کا فن کم ہی مفتون رَسیوں کا مشغلہ ہوتا ہے۔

جہاں خیالی تصورات و عمارات، توقعات، امیدیں اور بھروسے ٹوٹ اور بکھر جاتے ہیں، تو پھر مایوسی و ناامیدی اور ہارنے کے دشت وبیابان اور تپتے صحرا وہاں سے شروع ہوتی ہے، بے ہمت و بےحوصلہ اور کمزور دل انسان دشت و صحرا میں بٹھک بٹھک کر حیران اور سرگرداں رہ جاتے ہیں، باحوصلہ اور باہمت سورما وہاں سے نئے خیالات، پرجوش جذبات و احساسات اور نئی جہتیں تخلیق کرکے، اپنے خون کے چھینٹوں سے ہم جیسے مسافروں کے لیئے راستوں کا تعین کرکے بھٹکنے اور سرگردانوں کو سرگردانی سے بچانے کے لیے خون کے (چھیدہ )نشانات چھوڑ دیتے ہیں۔

ایسے وطن کے سچے عاشقوں اور سورماوں کے خون کی تپش، آج بھی تروتازہ اور گرم ہوکر خاکِ اقلیم میں جذب ہورہی ہے، ان کی مہک سے کئی اور سورمائیں کمربستہ ہوکر دشمن سے انتقام اور وطن و قوم سے جنونی عشق اور مہرومحبت کی تشنگی میں اپنی عقابی نگاہوں میں امید کی کرن کو لیکر منتظر ہیں، تاریخ کو دوبارہ دہرانے اور خود کو تاریخ میں امر کرنے کے لیئے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔